سنیل شیٹی کو ملنے والی پیش کش نے جیسے انہیں شش و پنج میں مبتلا کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسا کردار تھا جسے راہول رائے، بوبی دیول، ارباز خان اور پھر سب سے بڑھ کر سنجے دت نے مسترد کر دیا تھا۔
فلم ’دھڑکن‘ کا یہ کردار مختلف منزلیں طے کرنے کے بعد اب سنیل شیٹی تک پہنچا تھا، جن کے دل و دماغ میں ایک کشمکش چل رہی تھی۔
عام طور پر جب تواتر کے ساتھ کئی اداکار کسی کردار کو رد کر دیں اور کسی اور کے سامنے یہ پیش کش آئے تو وہ گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال سنیل شیٹی کے ساتھ تھی۔
دل میں یہی خیال آ رہا تھا کہ کہیں اس کردار میں کوئی جھول تو نہیں۔ ایسا تو نہیں ہو جائے گا کہ صرف ایک کردار سے ان کے کریئر پر ناکامی کے گہرے بادل ہمیشہ کے لیے چھا جائیں۔
فلم کے ہدایت کار دھرمیش درشن کو سنیل شیٹی بخوبی جانتے تھے۔ وہی ہدایت کار جن کی 1996 میں عامر خان اور کرشما کپور کی سپر ڈوپر ہٹ ’راجا ہندوستانی‘ نے تہلکہ مچایا تھا۔
جس کے بعد انہوں نے اگلے سال ہی نئی فلم ’دھڑکن‘ کی پروڈکشن کا آغاز کیا، جس میں اکشے کمار اور شلپا شیٹی کو اس لیے شامل کیا گیا کیونکہ ان دنوں دونوں کی محبت کے فسانے عام تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکشے کمار کے پیار کی دھڑکن شلپا شیٹی کے دل میں دھڑکتی تھی۔ ہدایت کار اسی بات کو کیش کرانا چاہتے تھے۔
سنیل شیٹی کو دھرمیش درشن کی صلاحیتوں پر اعتبار تھا لیکن دھڑکا یہی تھا کہ کہیں سارے اندازے غلط ثابت نہ ہو جائیں۔ یہی وسوسہ بس ان کو بے چین کیے جارہا تھا۔
اس وقت تک سنیل شیٹی کی ’دل والے،‘ ’مہرہ‘ اور ’گوپی کشن‘ بہترین کاروبار کرچکی تھیں اور وہ مستحکم اداکاروں کی فہرست میں شمار ہونے لگے تھے۔
لاکھ اندیشوں کے باوجود ایک دن سنیل شیٹی نے فیصلہ کر لیا کہ دھرمیش درشن جیسے کامیاب ہدایت کار پر بھروسہ کرنا ہی پڑے گا اور یوں وہ بھی اکشے کمار، شلپا شیٹی اور ماہیما چوہدری کی ’دھڑکن‘ کا حصہ بن گئے۔
ہدایت کار دھرمیش درشن کی ’دھڑکن‘ کی کہانی امیرغریب پریمی جوڑے کی تھی یعنی ہیروئن امیر اور عاشق غریب اور پھر ہیرو یعنی سنیل شیٹی کی یہی غربت اسے اس کے پیار سے دور کر دیتی ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی غربت کے اندھیروں کو مٹانے کی ضد پکڑ لیتا ہے اور ایک دن دولت مند بن کر پھر شادی شدہ ہیروئن کی زندگی میں قدم رکھ دیتا ہے۔
اب ہیروئن کے سامنے شوہر اکشے کمار اور پرانا پیار سنیل شیٹی ہوتا ہے۔ ایسے میں فلم کے اختتام میں پہلے پیار کی قربانی سنیل شیٹی دے دیتے ہیں۔
فلم کی موسیقی کے لیے شہرہ آفاق موسیقار جوڑی ندیم شروان کا انتخاب کیا گیا، جنہوں نے تین سال کی محنت کے بعد سمیر انجان کے لکھے ہوئے بولوں پر مدھر اور رسیلے گانوں کا گلدستہ ترتیب دیا۔
پاکستانی صوفی گلوکار نصرت فتح علی خان کی آواز میں مشہور قوالی ’دلہے کا سہرہ سہانا لگتا ہے‘ کو خاص طور پر شامل کیا گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لاہور کے ریکارڈنگ سٹوڈیو میں ریکارڈ ہوئی۔
ایک تاثر یہ بھی تھا کہ ندیم شروان اپنی مقبولیت کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی دھنوں میں کوئی کشش نہیں لیکن ’دھڑکن‘ نے اس خیال کو غلط ثابت کر دکھایا۔
فلم کے گانوں جیسے ’دل نے یہ کہا ہے دل سے‘، ’تم دل کی دھڑکن ہو‘، ’نہ نہ کرتے پیار‘، ’اکثر اس دنیا میں‘ اور ’دلہے کا سہرہ سہانا لگتا ہے‘ تو ہر ایک کے لبوں پر سجا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ’دھڑکن‘ کی 55 لاکھ آڈیو کاپیاں انڈیا میں فروخت ہوئیں، جو اپنی جگہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلم کے گانوں کی مقبولیت اور ریکارڈ فروخت نے ہی ’دھڑکن‘ کے بارے میں فلم بینوں کے دلوں میں تجسس بیدار کر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم اس تاریخ یعنی 11 اگست 2000 کو سینیما گھروں کی زینت بنی جب سنیل شیٹی کی سالگرہ تھی۔ فلم نے ابتدائی شوز کے بعد ہی کھڑکی توڑ کاروبار کرنا شروع کر دیا۔ گیتوں نے تو ’دھڑکن‘ کو اور شہرت پر پہنچا دیا۔
سنیل شیٹی جو ابتدا میں فلم میں کام کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ وہ دل ہی دل میں خوش تھے کہ انہوں نے ’دھڑکن‘ میں اداکاری کرنے کا درست فیصلہ کیا تھا اور اگر نہ کرتے تو ممکن ہے کہ اب پچھتاوا ہوتا۔
سنیل شیٹی تو جیسے اس فلم سے چھا ہی گئے۔ یہاں تک کہ اکشے کمار کی موجودگی ’دھڑکن‘ میں پس پردہ چلی گئی۔ سنیل شیٹی کے ادا کیے گئے مکالمے جیسے ’انجلی میں تمہیں بھول جاؤں، یہ ہو نہیں سکتا‘ اور ’تم مجھے بھول جاؤ، یہ میں ہونے نہیں دوں گا‘، ’کوئی بھی مذاق کرلو لیکن اپنے سے بچھڑنے کی بات مذاق میں بھی مت کرنا‘، ’اس جنم تو کیا، وہ سات جنم تک جیت نہیں سکتا‘ یا پھر ’کیوں میں جیت کے بھی ہار گیا اور وہ ہار کر بھی جیت گیا‘ نے انہیں فن کی بلندی پر پہنچا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف بس ان کا ہی چرچا تھا۔
کچھ فلم پنڈتوں نے بہرحال اس بات پر اعتراض کیا کہ فلم میں یہ درست زاویے سے نہیں دکھایا گیا کہ آخر سنیل شیٹی اس قدر دولت مند کیسے ہوگئے۔ انہوں نے کون سا کام کیا۔ یہاں تک کہ اسی پہلو پر پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر آج تک میمز بنتی رہتی ہیں۔
اگلے سال جب فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ سجا تو ’کہو ناں پیار ہے،‘ ’جوش‘ اور ’محبتیں‘ کے درمیان ’دھڑکن‘ بھی بہترین فلم کے مقابلے پر تھی۔ اس کے علاوہ فلم نے سات نامزدگیاں حاصل کیں۔
سنیل شیٹی بہترین ولن کا ایوارڈ لے اڑے۔ یہ ان کی زندگی کا اب تک اکلوتا فلم فیئر ایوارڈ ہے۔ مجموعی طور پر ’دھڑکن‘ کے پاس دو ایوارڈز آئے۔ دوسرا ایوارڈ گلوکارہ الکا یاگنگ نے حاصل کیا۔
بدقسمتی سے فلم کے ہدایت کار دھرمیش درشن نے ’راجا ہندوستانی‘ اور پھر ’دھڑکن‘ کے بعد جتنی فلمیں بنائیں، ان میں ’ہاں میں نے بھی پیار کیا‘، ’بے وفا‘ اور ’آپ کی خاطر‘ باکس آفس پر بری طرح فلاپ رہیں۔
دوسری جانب ’دھڑکن‘ کی کامیابی نے سنیل شیٹی کو بھی اور زیادہ شہرت کا وہ سفر دیا، جس کا انہوں نے تصور کر کے فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
سنیل شیٹی کہتے ہیں کہ فلم نگری میں جس نے درست وقت میں بروقت فیصلہ کیا وہی کامیاب ہوتا ہے۔ ’دھڑکن‘ کے وقت کئی خدشات کے باوجود انہوں نے ہمت کی اور درست فیصلہ کیا۔