جب  فلم ’میں آزاد ہوں‘ کا کلائمکس شوٹ نہیں ہو پا رہا تھا

آخری مناظر میں ہیرو امیتابھ بچن کو ایک جذباتی، ولولہ انگیز اور جوشیلی تقریر کرنی تھی جس کو سننے کے لیے سٹیڈیم میں عوام کا ہجوم ہوتا ہے لیکن اس کے لیے عوام کہاں سے لائی جائے؟

ہدایت کار ٹینو آنند کی فلم ’میں آزاد ہوں‘ کا ایک پوسٹر (نادیہ دوالا سنز)

ہدایت کار ٹینو آنند کو فلم ’میں آزاد ہوں‘ کا کلائمکس عکس بند کرنا تھا اور یہی ان کے لیے سب سے بڑی مشکل بنتی جارہی تھی۔

سکرین پلے کے مطابق آخری مناظر میں ہیرو امیتابھ بچن کو ایک جذباتی، ولولہ انگیز اور جوشیلی تقریر کرنی تھی جس کو سننے کے لیے سٹیڈیم میں عوام کا ہجوم ہوتا ہے۔

تقریر کے بعد امیتابھ بچن فلم میں شامل اکلوتے گانے ’کتنے بازو کتنے سر‘ کو گاتے جس کے ساتھ سُر سے سُر عوام ملاتے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ’ایکسٹراز‘ کہاں سے لائے جائیں۔ دور حاضر کی طرح 1989 میں ٹیکنالوجی اس قدر ترقی نہیں کر پائی تھی کہ کمپیوٹر گرافکس یا سپیشل ایفکٹس کی مدد سے یہ مناظر عکس بند کر لیے جاتے۔

ٹینو آنند کی ’میں آزاد ہوں‘ ہالی وڈ تخلیق ’میٹ جان ڈو‘ سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔ جس کی کہانی اور مکالمات جاوید اختر نے لکھے تھے۔ کہانی ایک خاتون صحافی (شبانہ اعظمی) کے گرد گھوم رہی تھی، اخبار کو بزنس مین خرید لیتا ہے جو ہر خبر کو نفع اور فائدے کے ترازو میں تولتا ہے۔

اسی رویے سے تنگ آخر خاتون صحافی مستعفی ہونے سے پہلے ایک فرضی شخص’آزاد‘ کی کہانی لکھ کر شائع کر دیتی ہے۔ ایک سرپھرا شخص آزاد  اعلان کرتا ہے کہ وہ بدعنوانی اور اقربا پروری سے تنگ آکر 26 جنوری کو خودکشی کر لے گا اور پھر ڈرامائی کشمکش اور دلچسپ موڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ فلم کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔

امیتابھ بچن کی ’میں آزاد ہوں‘ میں صرف ایک ہی گانا تھا۔ اس گیت کو جاوید اختر کے سسر اور شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی نے لکھا تھا۔ ’کتنے بازو کتنے سر‘ کے موسیقار امراپتل تھے۔

اس گیت کی دھن افریقی گانے ’لدیجا‘ کی کاپی تھی۔ جسے امیتابھ بچن نے یورپ میں فلم کی عکس بندی کے دوران سنا اور ان کی فرمائش پر اس دھن کو موسیقار جوڑی امر اپتل نے ’میں آزاد ہوں‘ میں استعمال کیا جسے گایا بھی خود بالی وڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن نے ہی۔

ٹینو آنند کو فکر یہی کھائی جا رہی تھی کہ کلائمکس کیسے عکس بند کیا جائے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ کہاں سے آئیں گے۔ فلم یونٹ سرجوڑ کر بیٹھا۔ امیتابھ بچن بھی اس صلح مشورے میں شامل ہوئے جس کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اخبارات میں اشتہارات دیے جائیں۔

ان اشتہارات میں بس یہی ہوگا کہ امیتابھ بچن کا شو دیکھنے کے لیے فلاں تاریخ کو سٹیڈیم پہنچ جائیں۔ اندازہ یہی لگایا گیا کہ دو سے تین ہزار افراد بھی آگئے تو بڑے مزے سے مناظر عکس بند ہوجائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طے شدہ پروگرام کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ مطلوبہ تاریخ پر جب ہدایت کار ٹینو آنند پروڈکشن ٹیم کے ساتھ سٹیڈیم پہنچے تو وہاں کا ماحول دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے کہ عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جو ان کی آمد سے پہلے ہی موجود تھا۔ ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار تماشائی اخبار میں اشتہار دیکھ کر پہنچ گئے تھے۔

یہ بات امیتابھ بچن کے علم میں لائی گئی تو انہوں یہی کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اب لاؤڈ سپیکر کے ذریعے امیتابھ بچن نے اعلان کیا کہ سب کے مناظر عکس بند کیے جائیں گے۔ بس نظم و ضبط کا خیال رکھیں۔ پروڈکشن ٹیم جو کہے اس پر عمل کیا جائے۔

صورت حال یہ تھی کہ جتنے تماشائی سٹیڈیم کے اندر تھے اتنے ہی میدان سے باہر۔ بڑی سکرین پر جہاں پہلے امیتابھ بچن جوشیلی اور انقلابی تقریر نشر کی گئی۔ پھر اس کے بعد وہ اپنا مشہور گیت گنگناتے ہیں۔ اب عالم یہ تھا کہ سٹیڈیم کے اندر اور باہر ہر کوئی اس گیت کو گا رہا تھا۔ پروڈکشن ٹیم نے سکھ کا سانس لیا اور یوں ’میں آزاد ہوں‘ کا یہ مشکل کلائمکس عکس بند کیا گیا۔

ٹینو آنند کی ’میں آزاد ہوں‘ جب 15 دسمبر 1989 کو سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تو کمرشل نقطہ نظر سے تو یہ فلم اس قدر کاروبار نہ کرسکی۔ بہرحال جاوید اختر کے لیے اگلا سال خوشیوں سے بھرا تھا کیونکہ اسی فلم کے دم دار مکالمات لکھنے پر انہیں بہترین ڈائیلاگ رائٹر کا فلم فیئر ایوارڈ جو ملا تھا۔

فلم کے ہدایت کار ٹینو آنند کے مطابق بسا اوقات فلم کا کوئی نہ کوئی حصہ ہاتھی کی دم کی طرح پھنس جاتا ہے۔ ان کے لیے بھی ’میں آزاد ہوں‘ کے کلائمکس میں کچھ ایسی ہی صورت حال تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم