یہ عجیب ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کو جب بھی انڈین فلموں میں دکھایا گیا تو ان کی شخصیت کو کافی حد تک منفی پیش کیا گیا۔
ان فلموں میں محمد علی جناح کے کرداروں کا جائزہ لیں تو وہ ضدی اور غصیلے نظر آئیں گے۔ اب چاہے 1982 کی برطانوی فلم ’گاندھی‘ میں الکیو پدمسی کو محمد علی جناح بنے ہوئے دیکھ لیں یا پھر 1993 میں انڈین فلم ’سردار‘ میں شری والاب ویاس کے کردار کا جائزہ لیں، ان فلموں میں ان کو انتہائی سخت گیر انسان دکھایا گیا۔
حال ہی میں ریلیز ہونے والی ویب سیریز ’فریڈم ایٹ نائٹ‘ میں بھی آصف ذکریا کے ذریعے اسی تاثر کو آگے بڑھایا گیا۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ پاکستان بننے کا سارا بدلہ انڈین ہدایت کار ان کے کردار کو مسخ کر کے لے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں ہدایت کار جمیل دہلوی اور اکبر ایس احمد کی فلم ’جناح‘ ایک غیر معمولی تخلیق تصور کی جاتی ہے۔
1998 میں سینیماؤں کی زینت بننے والی اس فلم نے اپنی ہدایت کاری، کردار نگاری، سکرین پلے اور اداکاروں کی وجہ سے اس تاثر کی نفی کی جو اب تک قائد اعظم کو لے کر انڈین فلموں میں دکھایا جا چکا تھا۔
کرسٹوفر لی، ششی کپور، شکیل، جمیز فوکس اور ماریہ اٹیکن جیسے ستاروں سے سجی یہ فلم ہر اعتبار سے مثالی تسلیم کی جاتی ہے۔
محمد علی جناح پر ضیا دور میں فلم
مشتاق گزدر کی کتاب ’پاکستانی سینیما 1947-1997‘ کے مطابق 1982 میں جب برطانوی ہدایت کار رچرڈ اٹینبرو کی فلم ’گاندھی‘ میں ان کی شخصیت کو منفی انداز میں پیش کیا گیا تو اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے اس کے جواب میں ان کی زندگی پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔
فلم کا نام ’سٹینڈ اپ فرام دی ڈسٹ‘ اس لیے رکھا گیا کیونکہ محمد علی جناح نے ایک بار بچوں کو گردوغبار میں گولیاں کھیلنے سے منع کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ دھول مٹی سے اٹھ کر اپنی زندگی کو کارآمد بنائیں۔
یہ فلم حکومت پاکستان کے سرمائے سے بنائی گئی۔ کروڑوں روپے خرچ کر کے یہ فلم مکمل ہوئی جسے جنرل ضیا الحق کو جب دکھایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ فلم تو بہت اچھی کاوش ہے لیکن اس میں جذبے کی کمی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کی عوامی نمائش نہیں کی گئی بلکہ قومی نوادارت میں جمع کرا دیا گیا۔
فلم جناح کا خیال کیسے آیا؟
1997 میں جب پاکستان اپنے قیام کی 50 ویں سالگرہ منانے کی تیاری کررہا تھا تو سکالر، رائٹر اور ہدایت کار اکبر صلاح الدین احمد نے ہدایت کار اور فلم ساز جمیل دہلوی کے ساتھ محمد علی جناح پر فلم بنانے کا اعلان کیا۔
ان کا ارادہ یہی تھا کہ اب تک ان کے متعلق جو پروپیگنڈا کیا گیا اور ان کی کردار کشی کی گئی، اس کا موثر اور ٹھوس جواب اسی فلم کے ذریعے دیا جائے گا۔
اس تخلیق کے لیے اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے مالی معاونت کی منظوری بھی دے دی۔ یہ حسین اتفاق ہے کہ جیسے ہی فلم ’جناح‘ کی پری پروڈکشن شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کی مرکز میں حکومت ختم ہو گئی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھال لیا۔
بظاہر ایسا لگا کہ فلم ’جناح‘ کاغذ سے اتر کر پردہ سیمیں کی زینت نہ بن پائے گی، لیکن نئی حکومت ہونے کے باوجود فلم کی پروڈکشن پر کام جاری رہا۔
کرسٹوفر لی کے انتخاب پر تنقید
پروڈکشن ٹیم کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ بانی پاکستان کے کردار کے لیے کس اداکار کا انتخاب کیا جائے؟
برطانوی ہی نہیں پاکستانی اداکاروں اور شخصیات کے آڈیشن بھی ہوئے لیکن کوئی اس کردار میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ نہ بیٹھا۔
پھر بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ اس مرکزی کردار کے لیے برطانوی اداکار کرسٹوفر لی کو منتخب کیا جائے۔
اس کردار کے لیے جو رعب اور دبابہ درکار تھا اس معیار پر کرسٹوفر لی مکمل اتر رہے تھے، مگر اس ساری کہانی میں ایک نئے تنازعے نے جنم لیا۔
کرسٹوفر لی کئی فلموں میں ڈریکولا کا کردار ادا کرچکے تھے جبکہ کچھ فلموں کے ولن بھی رہے۔
کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اس تمام مہم کے پیچھے ایک پاکستانی صحافی تھے جن کی خواہش تھی کہ وہ خود یہ کردار نبھائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا تو کرسٹوفر لی کے چناؤ پر تنقید ہوئی۔
اس متعلق کرسٹوفر لی نے 2003 میں جاری ہونے والی اپنی آٹوبائیو گرافی ’لارڈ آف مس رول‘ میں کھل کر بات کی۔
وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کو فلم ’جناح‘ سے اس لیے مسئلہ تھا کیونکہ انہوں نے مرکزی کردار کے لیے آڈیشن دیا۔
وہ تجربہ اور کردار کے لیے موزوں نہ ہونے کی بنا پر رد کر دیے گئے، جس کا سارا غصہ انہوں نے کرسٹوفر لی کو فلم کا حصہ بنانے پر نکالا۔
کچھ ایسا ہی اعتراض رتی جناح کا کردار ادا کرنے والی اندرا ورما پر بھی ہوا جن کی کچھ عرصے پہلے ایک بولڈ فلم سینیما گھروں کی زینت بنی تھی۔
کہا یہ جانے لگا کہ پروڈکشن ٹیم نے جان بوجھ کر متنازع اداکاروں کو فلم کا حصہ بنایا۔ جو اعتراض اور واویلا پاکستان میں مچا ایسا ہی کچھ انڈیا میں بھی تھا کیونکہ فلم میں ششی کپوراہم کردار ادا کررہے تھے۔
ایک انڈین اداکار کے پاکستانی فلم میں اور وہ بھی ایسی جو بانی پاکستان کے مثبت تاثر کو اجاگر کر رہی تھی، ششی کپور کو تنقید کے نرغے میں لے آئی۔
لیکن ششی کپور نے اسی دوران غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کی مہمان نوازی کی تعریف کی اور کہا انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ انڈیا میں نہیں۔
پاکستان آ کر بالکل گھر جیسا ماحول میسر ہوا۔ ششی کپور کے مطابق انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔
حیران کن طور پر کسی نے علامہ اقبال کا مختصر کردار ادا کرنے والے ایک اور انڈین اداکار مارک زبیر پر کوئی تنقید نہیں کی۔
بہرحال ان تمام تر تنازعات اور مزاحمتی مہم کے باوجود فلم کی عکس بندی تیزی سے جاری رہی ۔ نوجوان قائداعظم، رچرڈ لنٹرن بنے۔
جدید دور میں ماضی کی عکاسی
یہ کہنا کہ کسی بھی ہدایت کار کے لیے تاریخی فلم بنانا خاصا مشکل ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوا۔
’جناح‘ میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ ہدایت کار جمیل دہلوی کے لیے یہ بڑا ٹاسک تھا کہ وہ نوے کی دہائی میں قیام پاکستان کی منظرکشی کریں۔
گو فلم کا بجٹ اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود پروڈکشن ٹیم نے حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔
بیسویں صدی کی نایاب اور مہنگی گاڑیاں، ملبوسات اور سیٹ ڈیزائنگ میں بہترین کمال دکھایا گیا۔ غیر ملکی کیمرا مینز تھے جو ہر منظر کو اس طرح پیش کررہے تھے کہ یہی تاثر ملتا تھا کہ جیسے آپ 1947 میں ہی کھڑے ہوں۔
فلم کی عکس بندی کراچی، لاہور اور لندن میں ہوئی۔ کراچی کے فریئر ہال میں پروڈکشن ٹیم کا پڑاؤ رہا جن کی حفاظت کے لیے کڑے پہرے تھے اور یہاں کی راہ دریوں، بالکونیوں، سبزہ زار اور لابرئیری میں فلم کے بیشتر مناظر عکس بند کیے گئے۔
ششی کپور اور کرسٹوفر لی مرکزنگاہ رہتے لیکن اس تمام عرصے میں دونوں ہی پاکستانی ذرائع ابلاغ سے دور رہے۔
سینیئر صحافی ریحان احمد کہتے ہیں کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ’جناح‘ کی کوریج مشہور ہفت روزہ کے لیے کی۔
ان کے مطابق فلم میں ایک منظر تھا جب بانی پاکستان آزادی کے بعد پہلی بار کراچی آتے ہیں۔ اس منظر کو کراچی کے قدیم علاقے بولٹن مارکیٹ اور ٹاور کے درمیان واقعے روڈ پر عکس بند کیا گیا۔
منظر میں دکھایا جانا تھا کہ کس طرح پاکستانی قوم نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ریحان بتاتے ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اور عمارتوں کی بالکونیوں میں موجود تھے۔
ان تمام کا گیٹ اپ قیام پاکستان کے موقعے پر مہاجرین اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا کیا گیا۔ پروڈکشن ٹیم نے اتنی بڑی تعداد میں ان افراد کو ایک ہی مقام پر جمع کیا۔
فلم کے ایگزیکٹیو پروڈیوسر اکبر ایس احمد مشہور زمانہ موتن داس مارکیٹ کی چھت پر موجود تھے اور وہاں سے پورے منظر کا جائزہ لے رہے تھے۔
چاروں طرف کیمرے لگائے گئے تھے تاکہ قائد اعظم کی کراچی آمد کے اس تاریخی منظر کو اس کی تمام تر خوبصورتی اور حقیقی تاثر کے ساتھ عکس بند کیا جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منظر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے بولٹن مارکیٹ پر موجود تمام دکانوں کے سائن بورڈز ہٹا دیے گئے تھے اور ان کی جگہ ایسے سائن بورڈز لگائے گئے جن سے تاثر ملتا تھا کہ یہ حقیقی معنوں میں 1947 کا کراچی ہے۔
ظاہر ہے یہ سارے بورڈ فلم کے لیے خاص طور پر بنوائے گئے تھے۔ ریحان کے مطابق مجموعی طور پر اس لوکیشن پر 50 لائن پروڈیوسرز تھے جو لوکیشن کے مختلف حصوں پر تھے۔
ان سب کے پاس واکی ٹاکی رہا۔ جب ڈائریکٹر موتن داس مارکیٹ کی چھت سے ہدایت دیتا ہے تو وہ تمام لائن پروڈیوسرز کو بیک وقت سنائی دیتی اور وہ ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق لوگوں کو سمجھاتے کہ انہیں اب کیا کرنا ہے۔
فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہوا تو سامنے سے ایک ونٹیج کار آتی ہوئی نظر آئی جس میں قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے کرداروں میں اداکار کرسٹوفر لی اور شکیل بیٹھے تھے۔
عوام ان پر پھولوں کی بارش کر رہے تھے اور قائد اعظم زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ جواب میں دونوں لیڈرز عوام کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا کر دے رہے تھے۔
ریحان بتاتے ہیں انہیں ایسا لگا کہ وہ واقعی ماضی کے دور میں لوٹ گئے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ بہت ہی جذباتی اور خوبصورت منظر تھا۔
فاروق لغاری کا اکبر ایس احمد کو مشورہ
فلم کے سکرین پلے رائٹر اور ایگزیکٹیو پروڈیوسر اکبر ایس احمد کے ایک مضمون کے مطابق جب وہ اس وقت کے صدر فاروق لغاری کے علم میں اس فلمی منصوبے کو لائے تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دشمنوں بالخصوص انڈینز سے ہوشیار رہنا، وہ تمہارے منصوبے کو تباہ کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ انڈینز قائد اعظم اور ان کی پاکستان بنانے کی کامیابی کو برداشت نہیں کر سکتے۔
اکبر ایس احمد نے صدر لغاری سے درخواست کی کہ بانی پاکستان کے گورنر جنرل کے طور پر جلوس کے منظر کے لیے انہیں صدارتی باڈی گارڈز کو استعمال کرنے کی خواہش ہے تو صدر لغاری نے بلاجھجک انہیں کراچی روانہ کیا۔
ساتھ ہی انہوں نے وزرا اور گورنروں کو خط لکھا کہ اس فلمی منصوبے کے لیے اکبر ایس احمد سے ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ یہی نہیں صدر لغاری نے کرسٹوفر لی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بانی پاکستان کے کردار کو ادا کرنے کی حامی بھری۔
اکبر ایس احمد اپنے اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کی درخواست پر ایوان صدر میں پاکستان کے صف اول کے 30 صنعت کاروں سے بھی ملاقات کرائی گئی، جنہوں نے فلم کے لیے مالی معاونت کے عہد و پیما کیے۔
انہی صنعت کاروں میں سے ایک نے 30 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا لیکن بعد میں دوستوں کی محفل میں فخریہ انداز میں یہ کہتا ہوا پایا گیا کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلے گا، جنہوں نے صدر ایوب خان کو مشرقی پاکستان کے سیلاب کے بعد 10 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن دیا ایک روپیہ بھی نہیں۔
پے در پے تنازعات
فلم اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ ’جناح‘ مکمل ہوئی تو مصنف اور ہدایت کار کے مابین حقوق پر قانونی جنگ چھڑی ۔ پھر اسی طرح ایک شور یہ بھی اٹھا کہ فلم کا سکرپٹ فرخ ڈھونڈی نے بطور گھوسٹ رائٹر لکھا۔ ان کا نام اس لیے بھی خفیہ رکھا گیا کیونکہ ان کا تعلق انڈیا سے ہے۔
کرسٹوفر لی کا اعتراف
برطانوی عمر رسیدہ اداکار کرسٹوفر لی، جنہیں بعد میں ’سر‘ کا خطاب بھی ملا، انہوں نے اپنے متعدد انٹرویوز میں اعتراف کیا کہ انہوں نے جو بہترین کردارادا کیے ہیں ان میں ایک فلم ’جناح‘ میں بانی پاکستان کا کردار بھی شامل ہے۔
کرسٹوفر لی نے اپنی آب بیتی ’لارڈ آف مس رول‘ میں فلم کے متعلق بھی تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں فلم سے پہلے محمد علی جناح کے بارے میں بس ان کی معلومات یہی تھی کہ وہ ماہر اور ذہین سیاست دان تھے جنہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کی بنیاد رکھی۔
فلم کے کردار کے لیے جب انہوں نے تحقیق کا آغاز کیا تو محمد علی جناح کی قابلیت اور ذہانت کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی نگاہوں میں ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا۔
کرسٹوفر لی کے مطابق انہوں نے بانی پاکستان کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ان کی پرانی ویڈیوز کا بغور مشاہدہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کراچی میں لگ بھگ 10 ہفتے قیام کیا۔ ان کی سکوریٹی پر بھاری تعداد میں پولیس تعینات تھی جبھی وہ کھل کر کراچی کی سیر نہ کرسکے۔
کراچی کے علاوہ انہوں نے لاہور میں بھی عکس بندی کی۔ آنجہانی اداکار لکھتے ہیں کہ جب وہ فلم کے کلائمکس عکس بند کرا رہے تھے تو یہ انہیں فلم کا سب سے بہترین منظر لگا جس میں ان کی ایک کم سن بچی کی اس کے والد کے ساتھ ملاقات ہوجاتی ہے۔
اس منظر کوعکس بند کراتے ہوئے ان کے ذہن میں تواتر کے ساتھ یہ خیال آ رہا تھا یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جس نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے اپنی صحت اور نجی زندگی کا بھی خیال نہیں کیا۔
اور یہی وجہ ہے جب وہ اس منظر میں اس بچی کے مکالمے سنتے ہیں اور فضا میں بانی پاکستان کے حق میں نعرے بلند ہوئے تو جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بے اختیار حقیقی آنسو چھلک پڑے۔
بلاشبہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کرسٹوفر لی نے بانی پاکستان کے کردار میں اپنی غیر معمولی اور فطری اداکاری سے ان گنت رنگ بھر دیے۔
صرف کرسٹوفر لی ہی نہیں بانی پاکستان کی نوجوانی کا کردار ادا کرنے والے رچرڈ لنٹرن نے بھی کمال اداکاری دکھائی۔
اردو میں بہترین ڈبنگ
فلم ’جناح‘ جب مکمل ہوئی تو فیصلہ کیا گیا کہ وہ فلم بین جو انگریزی زبان سے نابلد ہیں ان کے لیے اردو زبان میں فلم کی ڈبنگ کی جائے۔
اس مقصد کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن کے تجربہ کار پروڈیوسر اور اداکار منظور قریشی، فلم ڈسٹری بیوٹر اور براڈ کاسٹر سعید شیراز اور وائس اوور آرٹسٹ پرویز بشیر کی ٹیم بنائی گی جنہوں نے فلم کے مختلف کرداروں کے لیے ڈبنگ آرٹسٹ کا انتخاب کرنا شروع کیا۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ بانی پاکستان کے کردار کے لیے کس اداکار کی آواز استعمال کی جائے اور یہ اعزاز ٹی وی اور فلم کے شہرت یافتہ اداکار غلام محی الدین کے پاس آیا جنہوں نے کرسٹوفر لی کے لیے ڈبنگ کی۔
غلام محی الدین اپنے کئی انٹرویوز میں اعتراف کرچکے ہیں کہ ’جناح‘ کے لیے ان کی آواز کا استعمال ان کے کیریئر کا بہترین کام رہا۔
فلم کی اردو ڈبنگ کے لیے پروڈیوسر اور ہدایت کار سعید رضوی کا سٹوڈیو استعمال کیا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے لیے سینیئر وائس اوور آرٹسٹ پرویز بشیر نے ڈبنگ کی۔
ایک اور آرٹسٹ مجیب سید نے نوجوان محمد علی جناح اور پھر گاندھی کے لیے اپنی آواز پیش کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فاطمہ جناح کے لیے حرا مانی کی نند اور مانی کی بہن عائشہ ثاقب کی خدمات حاصل کی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منظور قریشی نے ششی کپور کے مکالمات کے لیے اپنی آواز دی۔ لیڈی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کردار بالترتیب عذرا منصور اور شفیق الرحمٰن نے ڈب کرائے۔
ڈبنگ اس قدر معیاری اور غیر معمولی تھی کہ کہیں سے کوئی کمی محسوس نہیں کی گئی اور یہی محسوس ہوا کہ مختلف کردار واقعی اردو میں بات کررہے ہیں۔
مختصر لیکن پراثر اداکاری
فلم ’جناح‘ کی ہیوی ویٹ کاسٹ ہونے کے باوجود کچھ اداکاروں نے مختصر کردار ادا کیے لیکن وہ اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ جیسے ماڈل اور اداکارہ ونیزہ احمد نے دینا واڈیا کے کردار کے ساتھ انصاف کیا۔
اسی طرح خیام سرحدی، نوشین مسعود، اکبر سبحانی، محمود علی اور فاروق ضمیر نمایاں ہیں۔ لیکن ان سب میں بازی مرحوم طلعت حسین لے گئے جنہوں نے اختتامی منظر میں دل کو چھو لینے والی اداکاری دکھا کر جیسے میلہ لوٹ لیا۔
فلم ’جناح‘ کے اکلوتے نغمے ’آزادی‘ جنون گروپ نے گایا جسے آج تک اہم قومی تہواروں پر سنا جاتا ہے۔
عظیم شاہکار ’جناح‘ کو دو ستمبر، 1998 کو پردہ سیمیں کی زینت بنایا گیا۔ فلم کئی بین الاقوامی میلوں میں بھی شامل رہی جسے اعزازات کے ذریعے خاصی پذیرائی ملی۔
درحقیقت ’جناح‘ نہ صرف فنی معیار پر پوری اتری بلکہ اس نے تاریخی سچائی کا بھرپور دفاع بھی کیا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’جناح‘ صرف ایک فلم نہیں ایک جواب ہے تاریخ کے مسخ شدہ بیانے کا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔