محمد علی جناح اور ’بلبل ہندوستان‘ سروجنی نائیڈو

مسز سروجنی نائیڈو ایک اچھی شاعرہ بھی تھیں اور اسی سبب سے انہیں بلبل ہندوستان بھی کہا جاتا تھا۔ ان کا انتقال دو مارچ 1949 کو ہوا۔

محمد علی جناح کے بیشتر سوانح نگاروں نے ان کے اور سروجنی نائیڈو کے تعلق سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ یہ وہی تھیں جنہوں نے محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا تھا(پبلک ڈومین)

مسز سروجنی نائیڈو13 فروری 1879 کو حیدرآباد دکن میں ایک بنگالی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد اگھورے ناتھ چٹو پادھیائے ایک سائنس دان اور ماہر تعلیم تھے اور نظام کالج حیدرآباد دکن کے صدر مدرس بھی رہے تھے۔ مسز سروجنی نائیڈونے چنائے، لندن اور کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔

انھوں نے تحریک آزادی میں بڑا فعال حصہ لیا اورانڈین نیشنل کانگریس کی صدر بھی رہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد انھیں اترپردیش کا گورنر بھی مقرر کیا گیا۔

مسز سروجنی نائیڈو ایک اچھی شاعرہ بھی تھیں اور اسی سبب سے انہیں بلبل ہندوستان بھی کہا جاتاتھا۔ ان کا انتقال دو مارچ 1949 کو ہوا۔

محمد علی جناح کے بیشتر سوانح نگاروں نے ان کے اور سروجنی نائیڈو کے تعلق سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ یہ وہی تھیں جنہوں نے محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا تھا۔ اس بات کی بنیاد وہ کتاب ہے جو سروجنی نائیڈو نے ’محمد علی جناح: این ایمبیسڈر آف یونٹی‘ کے نام سے تحریر کی تھی۔

اس کتاب کا پس منظر یہ تھا کہ دسمبر 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے سالانہ اجلاس ایک ہی وقت میں لکھنؤ میں منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے اور کانگریس کے اجلاس کی صدارت اے سی مجمدار نے کی۔

 ان دونوں اجلاسوں میں ہند و مسلم اتحاد کا زبردست مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور دونوں اقوام نے ایک ایسے معاہدے کی منظوری دی جو مسلمانان برصغیر کے سیاسی سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس معاہدے میں جو پہلے کانگریس مسلم لیگ اسکیم اور بعد میں میثاق لکھنؤ کہلایا، مسلمانوں کی اہم کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے ہندوؤں اور کانگریس سے اپنے لئے جداگانہ انتخاب کا حق منوالیا۔

 کانگریس نے نہ صرف مسلمانوں کا یہ حق تسلیم کیا بلکہ جہاں جہاں ابھی تک اس طریق انتخاب کا نفاذ نہیں ہوا تھا مثلاً پنجاب اور سی پی، وہاں بھی اس کے اطلاق پر اتفاق کیا۔ میثاق لکھنؤ کا دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان جن جن صوبوں میں اقلیت میں تھے وہاں انہیں آبادی کے تناسب سے زیادہ نمائندگی دی جائے۔

میثاق لکھنؤ میں یہ بھی طے ہوا کہ آبادی کے کسی بھی طبقے سے متعلق کوئی بل یا قرارداد اس صورت میں کسی بھی کونسل میں پیش نہیں کی جائے گی اگر اس طبقے کی نمائندگی کرنے والے تین چوتھائی ارکان اس کے مخالف ہوں۔

سروجنی نائیڈو کا یہ جملہ اس ٹیلی گرام میں بھی نظر آتا ہے جو انہوں نے ممبئی میں لارڈ ولنگڈن کی سبکدوشی کے موقع پر منعقد ہونے والی الوداعی تقریب کو ناکام بنانے پر ممبئی کی شہریوں کی جانب سے تعمیر کئے جانے والے جناح پیپلز میموریل ہال کے افتتاح کے موقع پر محمد علی جناح کو روانہ کیا تھا۔

کانجی دوارکاداس کے مطابق اس عمارت کا افتتاح مسز اینی بیسنٹ نے کیا تھا جبکہ رضوان احمد کے مطابق یہ اعزازسروجنی نائیڈو کے حصے میں آیا تھا۔

رضوان احمد  اپنی کتاب ’میرے قائداعظم‘ میں لکھا ہے کہ اس موقع پر جناح صاحب لندن میں تھے اور سروجنی نائیڈو نے انہیں ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اس رسم افتتاح کی اطلاع دی اور تحریر کیا کہ ’امن و اتحاد کے پیامبر کی قدر و منزلت اس کی زندگی میں اور اس کے اپنے ملک کی گئی ، مبارک صد مبارک۔‘

یہ تو سیاسی معاملات تھے، مگر سروجنی نائیڈو، محمد علی جناح کی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ایک مداح کے طور پر شامل تھیں۔

رضوان احمد کے مطابق ’وہ سمجھتی تھیں کہ ان کی سہیلی مس ہما پیٹٹ جو سر ڈنشا پیٹٹ کی بہن تھیں جناح صاحب میں دلچسپی لیتی ہیں یا شاید خود جناح صاحب کا میلان ہما کی طرف ہو۔ ڈنشا پیٹٹ کی بیٹی رتن پیٹٹ تھیں جو رتی جناح کے نام سے معروف ہوئیں۔ سروجنی نائیڈو اپنے شاعرانہ انداز میں ہما پیٹٹ اور رتن پیٹٹ کے سامنے ایسی نظمیں پیش کرتی تھیں کہ کیا کہیے۔‘

رضوان احمد مزید لکھتے ہیں کہ ’محترمہ شیریں جناح کا خیال تھا کہ جناح صاحب میں مس رتن پیٹٹ کو جو دلچسپی پیدا ہوئی اس کی ذمہ دار سروجنی نائیڈو تھیں۔ رتن پیٹٹ بے حد کم عمر تھیں اس لئے سروجنی نائیڈو کا گمان تھا کہ جناح صاحب اگر کسی میں دلچسپی رکھتے ہوں گے تو وہ رتن نہیں بلکہ ہما ہوں گی لیکن ساری بساط الٹ گئی۔ ہما تو جناح صاحب کے دل کو نہ چھو سکیں اور دل کسی اور کا امڈ پڑا۔‘

اس کے بعد جو کچھ ہواوہ تاریخ کا حصہ ہے۔

1916 میں محمد علی جناح سر ڈنشا پیٹٹ کی دعوت پر دارجلنگ پہنچے جہاں انہیں رتن پیٹٹ کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا، یہیں انہوں نے سر ڈنشا پیٹٹ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔

رتن پیٹٹ نے بھی اپنے والدین کو مطلع کیا کہ وہ بھی یہی چاہتی ہیں مگر سر ڈنشا پیٹٹ نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ معاملہ عدالت تک پہنچا، جس نے فیصلہ دیا کہ جب تک رتن پیٹٹ 18 سال کی نہ ہوجائیں وہ اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتیں اور پھر وہ دن آیا جب رتن پیٹٹ 18 سال کی ہو گئیں۔

اس کے دو ماہ بعد رتن نے اپنے والدین کے گھر کو خیرباد کہا اور جناح صاحب کے گھر پہنچ گئیں جہاں انہوں نے پہلے ہی تمام انتظامات کئے ہوئے تھے۔ جناح صاحب نے رتن پیٹٹ کے قبول اسلام کے بعد ان سے نکاح کرلیا۔

ڈاکٹر سعد خان نے اپنی کتاب ’بیگم جناح‘ میں لکھا ہے کہ ’اس شادی کے بعد سروجنی نائیڈو نے سرسید کے گھرانے کے سید مسعود محمود کو ایک خط میں اس شادی کے بارے میں لکھا جناح صاحب نے آخر کار اپنے من کی مراد حاصل کرہی لی، اس کی وجہ سے پارسی برادری میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، لہٰذا میرا خیال ہے کہ اس لڑکی نے جناح سے شادی کرکے اس سے کہیں بڑی قربانی دی ہے جس کا اسے ابھی تک ادراک ہے۔‘

ڈاکٹر سعد خان کے مطابق سروجنی نائیڈو کا آخری جملہ بظاہر عمومی نوعیت کا تھا مگر یہ لیکن الہامی ثابت ہوا۔

 شادی کے چند گھنٹوں کے اندر ہی اتنا طوفان اٹھا کے رتی کے اعصاب کی آزمائش شروع ہوگئی جو ان کی زندگی بھر جاری رہی۔

شیلا ریڈی نے اپنی کتاب ’مسٹر اینڈ مسز جناح ‘ میں لکھا ہے کہ ’شادی کے کچھ دنوں بعد محمد علی جناح کی سیاسی مصروفیات میں اضافہ ہونے لگا۔  جناح صاحب زیادہ تر وقت بمبئی سے باہر گزارتے تھے اور رتی بمبئی میں شدید تنہائی کا شکار تھیں۔ وہ امید سے بھی تھیں ایسے میں ان کی ملاقاتیں سروجنی نائیڈو سے ہوئی جن کی سالگرہ 13 فروری 1919 کو منائی گئی تھی۔ سروجنی نائیڈو ان دنوں تاج محل ہوٹل میں ماہانہ بنیاد پر رہائش پزیر تھیں۔

رتی سروجنی نائیڈو سے ملنے تاج محل ہوٹل پہنچیں اور اپنے ساتھ ایک خوب صورت ساڑھی کا بارڈر بھی بطور تحفہ لے کر گئیں۔ ایک ہفتے بعدشادی کے بعد رتی کی پہلی سالگرہ کے موقع پر جناح صاحب انہیں وہ توجہ نہیں دے سکے جس کی رتی کو توقع تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب رتی اور سروجنی نائیڈو کی ملاقاتیں بڑھنی شروع ہوئیں۔ سروجنی نائیڈو نے تاج محل ہوٹل میں کمرہ تو ریزرو کیا ہوا تھا مگر وہ بمبئی میں کم کم ہی رہتی تھیں ان کا زیادہ تر وقت سیاسی دوروں میں بسر ہوتا تھا، مگر وہ جب بھی بمبئی آتی تھیں رتی روزانہ ان سے ملنے کے لئے آتی تھیں اور سارا دن ان کے ساتھ گزارتی تھیں چاہئے وہ مصروف ہوں یا فارغ۔

 سروجنی نائیڈو کو رتی کے بنے ٹھنے رہنے اور خوش باشی سے یہ اندازہ تو نہیں ہوتا تھا کہ وہ تنہائی کا شکار ہیں۔

سروجنی نائیڈو رتی کے روزانہ آنے جانے سے اکثر اکتا بھی جاتی تھیں مگر انہوں نے کبھی رتی پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ انہوں نے ان کے سارے وقت پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ رتی سے ہمیشہ مادرانہ شفقت سے پیش آتی تھیں۔‘

شیلا ریڈی نے مزید لکھا ہے کہ ’1919 میں ہوم رول لیگ کی رہنما اینی بیسنٹ نے جناح کو پیش کش کی کہ وہ ان کے ساتھ لندن چلیں جہاں وہ مونٹیگو چیمس فورڈ تجاویز پارلیمنٹ کے سامنے اپنی تجاویز پیش کریں گی ایسے میں جناح ان کے ساتھ ہوں گے تو انہیں آسانی رہے گی۔‘

رتی جناح کی زچگی کا وقت قریب آرہا تھا۔ جناح کے لئے انہیں تنہا چھوڑ کر جانا بھی ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اپنے سفر میں رتی کو بھی ساتھ لے لیا۔ یہ سفر ایس ایس مرکیرا میں طے ہوا۔

اتفاق ایسا ہوا کہ اسی جہاز میں سروجنی نائیڈو بھی سفر کررہی تھیں۔ رتی اس سفر سے بہت خوش تھیں کیونکہ ایک تو انہیں جناح صاحب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل رہا تھا اور دوسرے سروجنی نائیڈو بھی سفر میں شامل تھیں۔

رتی کواندازہ تھا کہ انگلینڈ پہنچنے کے بعد جناح اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوجائیں گے، مگر ساتھ ہی یہ اطمینان بھی تھا کہ سروجنی نائیڈو وہاں موجود ہوں گی۔

15اگست 1919 کو رتی نے ایک بیٹی کو جنم دیا جس کا نام دینا رکھا گیا۔ دو ماہ بعد سروجنی نائیڈو نے اپنی بیٹی پدماجا کو ایک خط میں لکھا کہ ’رتی بہت زیادہ خوش نظر نہیں آتی مگر ایک جرأت مندانہ اداس حسن لئے ہوئے۔‘

 اسی مہینے کے اواخر میں جناح اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بحری جہاز کے ذریعے واپس ہندوستان روانہ ہوگئے۔

اس سفر میں سروجنی نائیڈو ان کے ساتھ نہیں تھیں کیونکہ وہ لندن میں ایک آپریشن کروانے کے بعد صحت یابی کے لئے رک گئی تھیں۔ ان کی دونوں بیٹیاں حیدرآباد (دکن) میں تھیں جو رتی سے ملنے کے لئے بے تاب تھیں۔

رتی اپنے ماں باپ سے تعلقات ختم کرچکی تھیں اب وہ سروجنی نائیڈو کے خاندان کو اپنا خاندان سمجھتی تھیں چنانچہ وہ وطن واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد اپنی چند ماہ کی بیٹی کو آیا اور نرسوں کے سپرد کرکے اکیلی حیدرآباد (دکن) روانہ ہوگئیں جہاں انہوں نے پدماجا اور ان کی دوستوں کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزارا۔

اس سفر کا احوال شیلا ریڈی نے اپنی کتاب ’مسٹر اینڈ مسز جناح‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔

 جناح بے شک رتی کوزیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے مگر ان کے بیٹی کو چھوڑ کر حیدرآباد( دکن) جانے کا فیصلہ وہ قبول نہیں کرسکے، انہوں نے دو تین مرتبہ رتی کو گھر واپس آنے کے لئے لکھا، رتی دو ڈھائی ہفتے حیدرآباد (دکن) میں مقیم رہیں چنانچہ جب رتی گھر واپس لوٹیں تو انہیں گھر کا ماحول عجیب لگا۔

جناح نے رتی سے سرد مہری اختیار کرکے فاصلہ قائم کرلیا تھا جس پر رتی کی منت سماجت یا چھیڑ چھاڑ اثر انداز نہ ہوسکی۔ رفتہ رفتہ ان فاصلوں میں اضافہ ہوتا گیا، گھر میں فاطمہ جناح بھی مقیم تھیں مگر ان کی موجودی بھی رتی کی تنہائی کودور نہ کرسکی۔ سروجنی نائیڈو اوران کے خاندان سے رتی کا ملنا جلنا قائم رہا۔

 1928میں رتی نے سروجنی کو بتایا کہ ان دنوں وہ خود کو شادی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی ہیں اور نہ ناقابل بیان حد تک مجبور ہیں۔ حقیقت سے سمجھوتا کرنے کی کوشش اور خوابوں کی دنیا سے نکلنے کی خاطر انہوں نے اپنی تمام توانائیاں اور تخلیقی صلاحیتیں ترک کردی ہیں۔

سروجنی نائیڈو نے اس کا احوال ان خطوط میں رقم کیا ہے جو ہندوستان میں پدماجا نائیڈو پیپرز میں محفوظ ہیں۔20  فروری 1929 کو رتی جناح زندگی کی بازی ہار گئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ