’فاطمہ جناح:‘ پہلی قسط ہی دلوں کو چھو گئی

پاکستان کے یومِ آزادی پر نشر ہونے والے ڈراموں کا احوال، جن میں سب سے متاثرکن ’فاطمہ جناح‘ رہا۔

اس سیریز کا بہت کلاسک آہنگ ہے، بہت باریک بینی سے جزئیات لکھی و پیش کی گئی ہیں اور بہت شوق سے دیکھی گئی ہے (اور ڈیجیٹل سکرین گریب)

سب سے پہلے تو ہم سب کو پاکستان کی پلاٹنیم جوبلی مبارک، جس پہ 75 سالہ ایک یادگاری نوٹ بھی شائع کیا گیا ہے جو مستقبل میں جس کے پاس ہو گا اعزاز تصور کیا جائے گا۔

نہیں معلوم ایسا کیوں ہے کہ اگر آپ دنیا بھر میں آرٹ کے کسی بھی شعبے کا بغور مطالعہ کریں تو تقسیم ہند کے واقعات تازہ ہوتے دکھائی دے رہے اسے جڑی تاریخ و کہانی اپنے بھید کھول رہی ہے۔ ’مس ماروال‘ میں ہی دیکھ لیجیے۔ یو ٹیوب پہ ویب سیریز دیکھ لیجیے۔

دل نجانے کیوں کہتا ہے ہم ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں۔ اس دنیا میں ایک سیریز جس نے آنے سے پہلے ہی مقبولیت حاصل کر لی تھی اور جس کا شدت سے انتظار بھی تھاوہ ہے محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی پہ مبنی سیریز۔

’فاطمہ جناح‘

یہ ایک ویب سیریز ہے، جس کا پرولاگ، جو 14 اگست کو ’اور ڈیجیٹل‘ سے نشر ہوا اور نشر ہوتے ہی ناظرین کے دلوں کو چھو گیا۔ اتنی عمدہ عکس بندی، اتنی اعلیٰ موسیقی، اتنی اچھی اداکاری اور صدا کاری کہ اپ داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔

یہ ڈراما محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی کے تین ادوار پہ مشتمل ہے۔ ان کی زندگی کی تین اہم پہلو، ایک قائداعظم کی بہن، پہلی خاتون اول، ایک انقلابی، ریاستی ذمہ داریاں سنجھالنے والی خاتون۔ چونکہ قائد اعظم قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصہ حیات نہیں رہے، اس لیے محترمہ فاطمہ جناح نے سیاست میں بھی عملی قدم ایک لیڈر کے طور پہ رکھا۔

پرولاگ میں پاکستان بنتے اور تقسیم ہند ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان لاہور سے تقسیم کا اعلان سنایا گیا ہے۔ ٹرین جو لاہور آ رہی تھی اس میں قتل عام ہونے کے بعد کی صورت حال دکھائی دی ہے، پوری ریل میں کسی کا زندہ نہ ہونا۔ اور فاطمہ جناح اس سب کو دیکھ کر پریشان ہیں ایک شخص کے سینے سے لگا قرآن پاک پکڑ کر اپنے دوپٹے سے لگا لیتی ہیں۔

اس میں سجل علی نے فاطمہ جناح کا کردار ادا کیا ہے۔

یہ ایک تاریخی ویب سیریز ثابت ہو گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ فاطمہ جناح کی زندگی کے کن کن اداوار کو یہ سیریز اجاگر کرنے میں کامیاب ہوتی ہے کیونکہ جتنی بڑی شخصیت ہوتی ہے اتنا پھیلاؤ کردار کا ہوتا ہے۔

ابھی تک مجموعی طور پہ 15 منٹ کا پرولاگ شدید انتظار میں مبتلا کر گیا ہے۔ بہت کلاسیک آہنگ ہے، بہت باریک بینی سے جزئیات لکھی و پیش کی گئی ہیں اور بہت شوق سے دیکھی گئی ہے۔

پرچم

ہم ٹی وی سے ایک سنجیدہ اور فکر انگیز شارٹ فلم ’پرچم‘ بنیادی طور پہ پاکستانی پرچم کا فلسفہ بیان کرتی ہے۔ اس کا ماضی اسے جڑے حقائق اور اس میں غیر مسلم اقلیتوں کی نمائندگی کی شمولیت کیوں ضروری تھی۔

ساتھ ہی ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کو پیش آنی والے مسائل کو بہت سجیدگی و نفساست سے نہ صرف دکھایا گیا ہے بلکہ اس کا جواز اور وجوہات پہ بھی بات ہوئی ہے۔

نئی نسل کے اذہان میں اس ساری بدامنی کے دوران ابھرنے والے سوالات کو بھی رد نہیں کیا گیا۔ حقیقت سے منہ نہیں موڑا گیا مگر یہ لکھنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا یہ ذمہ داری ایمان اللہ شیخ نے بہت عمدگی سے نبھائی ہے۔

بدامنی کے دور میں محبت کے بیج بوتے ایسے ڈراموں، فلموں کی ہمیں اشد ضرورت ہے

’تھوڑی سازش تھوری مداخلت‘

یوم آزادی پہ ہم ٹی سے یہ ٹیلی فلم پیش کی گئی جس میں قوی خان صاحب کی اداکاری جہاں بہت عرصہ بعد دیکھنے کو موقع ملی، وہاں اداکاری کی تین نسلوں کے تکنیکی جوہر اور معاشرتی رنگ صاف دکھائی دیے۔

کہانی تو نام جیسی ہی ہے۔ امریکہ جا کر سیٹ ہو جانے والی اولاد اپنی پیچھے رہ جانے والی وراثتی جائداد کے لالچ میں نہ صرف پاکستان آتی ہے بلکہ ان کو اپنے جیسا ہی ایک لالچی نالائق اور نااہل بے ورز گار داماد مل جاتا جس کو امریکہ جانے کے لیے ایک ویزے والی لڑکی چاہئے تھی۔ یوں دونوں کی ڈیل ہو جاتی ہے۔ وہی پاکستانی سوچ کہ جیسے بس باہر جا کر ڈالر بغیر محنت کے آسمان سے گرتے ہیں۔

لیکن دادا ابا بھی ایک شرط رکھتے ہیں کہ پوتی کے نام جائیداد کریں گے اور وہ پاکستان میں ہی شادی کر کے رہے گی۔ پوتی صاحبہ کے لالچی والدین وقتی طور پہ شرط مان بھی لیتے ہیں لیکن وہی سازش اور مداخلت کا کھیل کھیلتے ہیں۔

آخر کار کہانی ہسنی خوشی والے اختتام پہ ختم ہو جاتی ہے۔

کہانی کو علامتی انداز سے دیکھیں تو دادا پاکستان کی بانی نسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پوتی نئی نسل کی اوراس کے والدین درمیانی نسل کی۔ یہ جو درمیانی نسل ہے اس کی سازش اور مداخلت سے دو نسلیں پریشان ہیں۔ بنیاد اور پروان کے درمیان کہیں خرابی ہوئی ہے۔ جس میں باہر والوں کا ہاتھ ہے۔ اپنے یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ مادیت کی پٹی بہت زور سے بندھی ہوئی ہے

بہر حال ڈرامے کا اختتام اچھا تھا ’مجھ سے شادی کرو گے؟‘ اگر لڑکی کہے تو اس اظہار کو عزت ملنی چاہیے۔

جس طرح سیاسی سا ٹچ نام میں ہے ویسا ہی اختتام میں ہے۔

’ہم کوئی غلام ہیں‘

کہانی، مکالمہ، بیک گراؤند موسیقی بہت عمدہ تھا مگر اداکاری پہ توجہ کم دی گئی۔

’یہ شارٹ فلم بنانے کا مقصد آج کے بچوں کو سمجھانا ہے کہ آزادی کا مطلب سڑکوں پہ غل غپاڑہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ ہمارے بڑوں نے کس مقصد کے لیے اتنی قربانیاں دیں۔‘

یہ جملہ کہانی کے آخر میں لکھا کہانی کی وضاحت کر دیتا ہے۔

ڈرامے میں تین کردار موجود ہیں۔ دادا اور ایک پوتا، ایک پوتی۔ دادا اس نسل کی نمائندگی کر رہے ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 مکالموں اور خود کلامی میں جو نوسٹلجیا ہے وہ شاید اس نسل کے ہر شخص نے اپنی زندگی تک کیا ہے جن کے گھر باڑ اور رشتے نہیں رہے۔ ان کے لیے آزادی اور پاکستان کا مطلب ہی کچھ اور ہے۔

وہ جو بار بار قائد اعظم سے باتیں کرتے ہیں۔ کبھی وہ ٹرین کو یاد کرتے ہیں جو لاہور سٹیشن تو آ گئی مگر اس میں زندہ کوئی نہیں تھا۔ کبھی وہ نئی تہذیب کے نئے طرز جشن پہ اپنے ہی دل کو اداس کر لیتے ہیں۔

دادا جی کی اپنی بہن کو تقسیم کے وقت قتل کر دیا گیا، جنہوں نے یہ وقت دیکھا وہ نسل آزادی کے دن نہ باجے بجاتی ہے، نہ گانے گاتی ہے، نہ ون ویلنگ کرتی ہے ان کی آنکھیں تو بس اس وقت کو یاد کر کے نم ہو جاتی ہیں۔ وہ اگلی نسلوں کو سرخرو اور ملک کو سر بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس شارٹ فلم میں بھی درمیانی نسل غائب ہے۔

’سر سبز پاکستان کی امید‘

یہ ایک پانچ چھ منٹ کی میوزیکل کہانی ہے جو گرچہ ایک کمرشل پیش کش ہے لیکن بہت ہی زبردست ہے۔ اس میں ہمارے لیجنڈ ندیم بیگ صاحب دکھائی دیے، جن کی آنکھوں میں پاکستان کے مستقبل کے لیے امید کے جگنو جگمگاتے ملے۔

وہی کہانی دادا اور پوتا۔ دادا وہ نسل جن کا لہو، جذبہ، امیدیں، مستقبل، حال سب پاکستان کی مٹی پہ قربان ہوا۔ ان کو جو امیدیں تھیں گرچہ وہ پوری نہیں ہو سکیں لیکن ان کا پوتا اس پچھترویں یوم آزادی پہ ان کو جس امید کے دنیا سے ملا دیتا ہے۔ وہ مطمین ہو جاتے ہیں۔

جو باتیں داداجی اپنے پوتے سے کر رہے ہیں وہ اصل میں پوری قوم کے بچوں سے کر رہے ہیں جو امید کے جگنو ہیں۔

لوکیشنز کا اتنخاب بہت عمدہ ہے۔ ہریالی کھیت زمین اوراندھیرے میں روشنی کے ستارے۔

فاطمہ فرٹیلازر کی طرف سے یہ یوٹیوب چینل سرسبز پہ دیکھا جا سکتا ہے۔

آزادی کا جشن

جیو سے ایک طنز و مزاح سے بھرپور اینیمیٹڈ شارٹ فلم ’آزادی کا جشن‘ بھی سماجی رویوں پہ شدید طنز اور نشاندہی تھی

مجموعی طور پہ اس یوم آزادی پہ ٹی وی پہ زیادہ تر ٹی شوز دکھائی دئیے لیکن یوٹیوب چینلوں نے مختصر ڈراموں کو بہت رمدگی سے پیش کیا۔

بلا شبہ ان سب کا جذبہ بہت بلندی پہ دکھائی دیا کہ اس مختصر سی تحریر میں سمایا نہیں جا سکتا۔

دو نسلیں مخاطب دکھائی دیں یوں لگا جیسے ان دو نسلوں کو درمیانی نسل سے کوئی گلہ ہے یا درمیانی نسل کہیں بہت ہی زیادہ مصروف ہے یا پھر درمیانی نسل ان دو نسلوں کو نظر انداز کر گئی ہے۔

 سب ڈراموں، ٹیلی فلمز، شارٹ فلم احمد ندیم قاسمی کے ایک ہی شعر کی تفسیر تھیں۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی