’سسرالیز:‘ ممکن نہیں کہ آپ بور ہو سکیں

شگفتہ مزاح لکھنے پہ مصنفہ کو داد دینا بنتی ہے کہ انہوں نے مزاح کا کلاسک دور یاد کروا دیا، جسے پروڈیوسر نے بھی اتنی ہی عمدگی سے پیش کیا ہے۔

’سسرالیز‘ گھر گھر کی کہانی ہے، جس میں مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں (ٹی وی ون)

اجی کیا بتائیں، سچ پوچھیں تو دل باغ باغ ہو گیا کیونکہ شائستہ مزاح اب بہت کم دکھائی دیتا ہے، جس میں ایک پوری تہذیب رچی بسی ہوتی ہے۔ اردو، سندھی اور پنجابی تہذیب اپنی زبان و بیان، تاریخ، جغرافیہ، نفسیات سمیت رشتوں کے بندھن میں جڑی ہوئی ہے۔

’سسرالیز‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے گھر گھر کی کہانی ہے، وہی مسائل ہیں جو مشترکہ خاندانی نظام میں عموماً پائے جاتے ہیں، وہی کزن شپ جو اب ناپید ہوتی جا رہی ہے، وہی رشتوں کا احترام، بزرگوں کے سامنے اور ساتھ ایک خاص لحاظ رکھا جاتا تھا، ڈرامے میں یہ سب دکھائی دے رہا ہے۔

سسر ابا کا بنایا ہوا گھر ہے جس میں ان کی دو بیوہ بہوئیں، دو پوتیاں اور ایک پوتا رہ رہے ہیں۔ چھوٹی بہو 12 سال لندن رہ کر آئی ہیں اس لیے پنجابی وہاڑی کی بہو پر انگریز کا کچھ کچھ رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس کی بڑی بھابھی کا خیال ہے کہ انگریز کو برصغیر پہ قابض ہونے کی اسے اچھی سزا نہیں مل سکتی تھی۔

ایک خاندانی ملازم بھیا ہے اور پرانے ملازم بھی بس گھر کا حصہ سا ہو جاتے ہیں۔ ہر راز بھید سے واقف، ہر بھوت پریت کو بھگانے کا ہنر جاننے والے۔ بھیا کو محلے میں نئی آنے والی ایک ملازمہ سے محبت ہو گئی ہے۔

اجی عمر کا تقاضا، دل تو رب نے سب کا بنایا ہے۔ ارمان بھی سب کے اپنے اپنے وقت پہ ہی مچلتے ہیں بس کچھ کو دیکھ کر زیادہ ہی مچل جاتے ہیں، یونہی اچھا اور برا لگنے لگتا ہے۔ بھیا جی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

گھر میں ربیکا کی شادی ایک سندھی لڑکے سے طے پا رہی ہے، یوں سندھی تہذیب گھر میں در آتی ہے۔

زین کی ماں اندرون سندھ سے ہے۔ وہ لڑکی دیکھنے کراچی آئی ہے اور اس کے بیٹے کے بقول اس کی ماں کا اپنا آئین ہے جس میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا ربیکا اور اس کے گھر والوں کو اس آئین کی پاس داری ہر صورت کرنا ہے تاکہ یہ شادی ممکن ہو سکے ورنہ اس کی ماں فوری حکومت گرا سکتی ہے۔

ہائے شادی کا آئین، ذرا سی قانون شکنی ہوئی نہیں اور رشتہ ٹوٹا نہیں۔

 چھوٹی بہو پنجابی اور بڑی اردو بولتی ہے۔ یوں تین زبانیں، ان کی تاریخ، محاورات، حکایات اس میں بہت نفاست سے لکھی ہی نہیں گئیں بلکہ بہت عمدگی سے پیش بھی کی گئی ہیں۔

گھر ہی میں سارہ اور اس کے لندن سے آئے چچا زاد عالیان کی بچپن کی محبت جوان ہو رہی ہے جس میں ولن کا کردار ادا کرنے کے لیے عالیان کی ماں نے اپنی سہیلی کی سوشل میڈیا مشہور بیٹی کو داخل کر لیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا ہیروئین ’جانو‘ اپنا سوشل میڈیائی کردار ادا کرتی ہمیں اصل اور مصنوعی زندگی کے فرق کو خوب سمجھا دیتی ہے۔

اصل زندگی کی اصلی محبت سارہ اور عالیان باد نسیم جیسی ہوتی ہے اور سوشل میڈیائی محبت میں گرد ہوائی طوفان کی کیفیت ہوتی ہے جو جانو کی طرح جلد تھم جاتا ہے۔

 ڈرامے میں کردار آ جا رہے ہیں اور سب کچھ حسن اتفاق سے ہو رہا ہے۔ حسن اتفاقات ہی اصل میں زندگی کا حسن ہیں جو کبھی تو خوشگوار روپ دھاڑ لیتے ہیں کبھی خوف ناک۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرخندہ آپا بھی اس گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے حصے دار ہیں لیکن دونوں بھابھیاں ان کو اور ان کے شوہر جمی بھائی کو رکھنے کو تیار نہیں ہیں، لہٰذا جلد ان کی انٹری کا ڈراپ سین ہو جاتا ہے لیکن ابھی اس کردار نے ابھر کر پھر آنا ہے۔

اسی کردار کی وجہ سے حسن اتفاقات رونما ہو رہے ہیں کہ کبھی وہ اپنے ابا کے گھر میں الیکٹریشن بھیج دیتی ہیں تو کبھی کوئی نفسیاتی ڈاکٹر، اور کبھی ان کے میاں اپنے ماضی کی حسرت سمیٹے در آتے ہیں۔

سین طویل ہیں لیکن پر لطف ہیں، ممکن نہیں کہ لبوں پہ ہنسی نہ آئے اور مکمن نہیں کہ آپ بور ہو جائیں۔

مانا کہ مزاح سے محظوظ ہونے کے لیے بھی ایک مزاج چاہیے ہوتا ہے لیکن فطری طور پہ انسان میں یہ موجود ہوتا ہی ہے۔

 ایک ایک جملہ بہت ناپ تول کے لکھا ہوا ہے اور اس پہ ادا کرنے والوں کی ادائیگی نے تلفظ کا حق ادا کیا ہے۔ گویا مکالمہ بہت زبردست ہے۔ ڈرامے کی جان مکالمے میں ہے۔

بڑی بھابھی حنا دل پذیر نے کہانی کو گھر کے بڑے کی طرح کاندھوں پہ اٹھایا ہوا ہے۔  اب جو ان کے سسر ابا کی خواب میں انٹری ہوئی ہے لگتا ہے کہانی کا رخ موڑنے والی ہے۔

شگفتہ مزاح لکھنے پہ مصنفہ کو داد دینا بنتی ہے کہ انہوں نے مزاح کا کلاسک دور یاد کروا دیا۔ پروڈیوسر نے بھی اس کو اتنی ہی عمدگی سے ٹی وی ون سے پیش کیا ہے۔

ڈرامے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہیرو کے ہاتھ میں کتاب ہے، وہ بار بار کتاب پڑھتا دکھایا گیا ہے۔ یوں لگتا انگریری ناولوں کا شوقین ہے کیونکہ جس ڈھب کی کتاب وہ تھامے ہوئے ہوتا ہے وہ انگریزی چھاپ ہے۔ یا وہ میوزک سنتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اسی اعتبار سے کردار کی مکمل پیش کش میں مردانہ نفاست و معصومیت دکھائی گئی ہے۔

ایسے کردار اب بہت کم دکھائی دیتے ہیں جن میں سنجیدہ ذہنوں والا کرداری ٹھہراؤ ہو۔

ڈرامے کا دوسرا ہیرو زین ہے اس کے ہاتھ میں بھی کتابیں ہیں بلکہ وہ تو ربیکا سے ملنے کا بہانہ بھی کتاب دینا ہی تلاشتا ہے، یوں یہ کتاب دوست کلچر ڈراما بن جاتا ہے۔

بڑوں کی لڑائی میں گھر کے بچے اپنا رشتہ ایک دوسرے سے خراب نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کے بڑے کہاں درست اور کہاں غلط ہیں، لیکن عزت والا مفاہمتی رویہ اپناتے ہیں۔ یہ رویہ پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ڈرامے میں ایک دوسرے سے کیے گئے چھوٹے موٹے مذاق کو مزاح ہی رکھا گیا ہے، خاندانی سیاست نہیں بنایا گیا۔ کبھی بڑی بھابھی اپنی اوپری منزل سے اپنی چھوٹی بھابھی پہ پانی پھینک دیتی ہے تو کبھی کوئی مونگ پھلی کے چھلکے، لیکن چھوٹی بھابھی قوت برداشت سے کام لیتی ہیں۔ بہرحال کہانی قوت برداشت سے رشتے جوڑے رکھنے کا پیغام دے رہی ہے جو سن لینا چاہیے۔

’سسرالیز‘ کو اس طرح مزاحیہ انداز میں کامیابی سے پیش کرنا بتاتا ہے کہ زندگی ہو یا سکرین مسائل تو ہر جا موجود ہیں۔ فن یہ ہے کہ آپ ان مسائل کوخود پہ حاوی کر کے اپنے حواس کھو دیتے ہیں یا  ان کو جھیلنے کا ڈھب بدل کر اپنے مسائل کی شدت کو خود کے لیے اور دوسروں کے لیے کم کر دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی