بخت آور: ہراسانی کے گرد گھومتی ’مشکل فیصلوں‘ کی کہانی

بختاور کہانی کا مرکزی کردار ہے جو پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتی ہے لیکن اس کا باپ جوا کھیلتا ہے جس میں وہ گھر کا سب کچھ ہار جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی ایک اور بیٹی بھی شاید جوئے میں ہار آتا ہے۔

مصنفہ نادیہ اختر کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے میں واقعات اور کہانی سچی ہے لیکن سچائی کو سین میں پرونا زیادہ دشوار ہے (تصویر: بخت آور فیس بک پیج)

ایک لڑکی عورت کیسے بنتی ہے اور ایک لڑکا مرد کیسے بنتا ہے۔ یہ سمجھنا ہو تو ڈراما ’بخت آور‘ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

پیدا تو سب ہی ایک نفس سے شفاف صورت ہوتے ہیں لیکن حالات و واقعات ایک انسان کے بچے کو مرد اور عورت میں بدل دیتے ہیں، جن سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

’ہم ٹی وی‘ پر اتوار کو نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’بخت آور‘ دیکھتے ہوئے اروندھتی رائے کا مشہور ناول ’God of small things‘ یاد آگیا۔ اس میں بھی کہانی کا ایک رخ ایسا ہی ہے کہ بچے اور معاشرہ کیسے بنتے ہیں۔ وہاں جڑواں بہن بھائی ہیں، یہاں ایک بختاور دونوں کردار نبھا رہی ہے۔

ڈرامے کے آغاز سے ہی چونکا دینے والی صورت حال ہے۔ کہانی کی رفتار تیز ہے ورنہ ہراسانی اور ظلم کے گرد گھومتی کہانی ناظر کو بھی ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ڈرامے کی تیز رفتاری نے ناظر کو معاشرے کے رویوں کی طرف ہی متوجہ رکھا ہوا ہے۔

مصنفہ نادیہ اختر کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے میں واقعات اور کہانی سچی ہے لیکن سچائی کو سین میں پرونا زیادہ دشوار ہے۔ اس میں پھسل جانے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ جملے کی اٹھان جغرافیے سے میچ نہیں کر رہی۔

چوتھی قسط میں جملے اور جغرافیے کی پلیٹیں سیٹ ہوئی ہیں، یہیں سے کہانی حقیقت سے نکل کر زیب داستان کے لیے اڑان بڑھتی محسوس ہوتی ہے جب ایک سیاست دان کا بیٹا دلاور بختاور یا بختو کی زندگی میں آتا ہے۔

بختاور کہانی کا مرکزی کردار ہے، جو پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتی ہے لیکن اس کا باپ جوا کھیلتا ہے جس میں وہ گھر کا سب کچھ ہار جاتا ہے، یہاں تک کہ اپنی ایک اور بیٹی بھی شاید جوئے میں ہار آتا ہے۔

اچانک اس کے لیے سرخ جوڑا لاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ تیار ہو جائے۔ والد اس کا نکاح ایک بوڑھے مرد کے ساتھ طے کر آتا ہے اور زور زبردستی اسے گھر سے لے جا کر نکاح کر دیتا ہے اور اس کے بعد کبھی گھر واپس نہیں آتا۔

بیٹا بستر مرگ پہ ہی منزل آخرت کو رخصت ہو جاتا ہے۔

بختاور کے ماموں اس کے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں وہ چاہتے ہیں کہ بختاور کی شادی اپنے نیم ذہنی مریض اکلوتے بیٹے سے کر دیں۔ یوں ان کی زمینوں کو سنبھالنے والا بھی کوئی ہو جائے گا لیکن بختاور انکار کر دیتی ہے۔

ایک سہیلی کی شادی پر اس کا بھائی احد، بختاور کو دیکھ کر اپنی بہن سے بختاور سے شادی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے، لیکن وہ اسے بھی انکار کر دیتی ہے۔

کہانی میں یہ سب حالات اتنی تیزی سے گزرے ہیں کہ کیا بھلا سا ایک مصرعہ یا د آ گیا:

’زندگی تیز، بہت تیز چلی ہو جیسے‘

کتاب ’درویشوں کا ڈیرا‘ میں لکھا ایک اور جملہ یاد آگیا: ’زندگی چند فیصلے کے چند ستونوں پہ کھڑی ہوتی ہے۔‘

اس ڈرامے میں بھی بختاور کی زندگی فیصلوں کے چند ستونوں پہ کھڑی ہے۔ اسے پڑھنا ہے، کچھ بننا ہے، اپنی بہن کی طرح بے بسی سے، کسی کے لیے قربان نہیں ہو جانا۔ اپنی ماں کی طرح ایک لاچار عورت نہیں بننا۔ اپنے اور اپنوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔

یہ مشکل نہیں، بہت مشکل فیصلہ تھا اور اس سے بھی مشکل اس پہ عمل کرنا تھا۔ وہ اپنی اسی سہیلی کے بھائی احد کی مدد سے رات کی تاریکی میں اپنی ماں کو لے کر قصبہ چھوڑ کر کراچی چلی جاتی ہے۔

کراچی میں اس کی والدہ کی کزن کے گھر چند دن رہنے سے ان کی نیت بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس کے خالو بختاور کے ماموں سے بڑی رقم کے عوض اسے اور اس کی ماں کو ان کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہوتے ہیں، مگر بختاور یہ سب سن لیتی ہے اور اسے یہاں سے ایک بار پھر بھاگنا پڑتا ہے۔

کرائے کا کمرا جھوٹ پہ مل تو جاتا ہے مگر بنا مرد کے اس محلے میں بھی گزارا نہیں ہے۔ جتنا دلدل میں آگے بڑھتے جائیں انسان اتنا دھسنتا چلا جاتا ہے۔ زندگی بھی کبھی بے بسی کی دلدل بن جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہانی اچانک نیا موڑ لیتی ہے اور بختاور سماج کے ہاتھوں مجبور ہو کر ’بختو‘ یعنی لڑکا بن جاتی ہے۔ اب وہ ایک ٹین ایجر لڑکا بن کے سامنے آتی ہے۔

سماج بھلے پدر شاہی ہو، اپنی پیدائشی جنس بدلنا عورت کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ پہلا پیار تو انسان کو اپنے آپ سے ہی ہوتا ہے، اس کے سارے حسن اس کی پیدائشی شناخت سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ فطرت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بھید یہ بھی کھلتا ہے کہ نوجوان لڑکا ہونا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک نوجوان لڑکی ہونا۔

لڑکے پہ سماج کا مردانہ ٹھپا لگا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی ہو بھی جائے تو وہ بتا نہیں سکتا، رو نہیں سکتا کہ وہ تو مردانہ سماج کا ایک مضبوط مرد ہے۔ اب وہ مضبوط ہے یا نہیں سماج میں اسے خود کو مضبوط دکھانا ہے۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سماج ایک لڑکی کو عورت اور ایک لڑکے کو مرد کے سماجی ڈھانچے میں کتنی ذہنی وجمسانی اذیت کے بعد شامل کرتا ہے۔

ایک ہی ڈرامے میں ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ نہ تو سب عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں نہ ہی سب مرد ایک سے ہوتے ہیں۔

ایک طرف اگر بختاور کا باپ، خالو، باس، مالک مکان اور اوباش محلے دار ہیں تو دوسری طرف احد اور دلاور بھی ہیں گویا صرف رحم دلی اور محبت ہی انسان کے اندر کے کانٹے کاٹنے کے کام آتے ہیں۔

اس ڈرامے کے حوالے سے ہم ٹی وی کی سکرپٹ انچارج سائرہ غلام نبی نے بتایا: ’ہمارے سامنے دو راستے تھے، لڑکی کو ٹام بوائے بنایا جائے یا لڑکی ہی رکھا جائے۔ میرا خیال تھا کہ اس کو زنانہ وار دیکھایا جائے کیونکہ ہم نے بھی تو معاشرے کا مقابلہ زنانہ وار ہی کیا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ سب سے اہم بات ڈرامے کا بنیادی موضوع ہراسانی ہے۔ ’یہ بتانا ہے کہ ایک عورت کو بطور عورت معاشرے میں کہاں کہاں اور کس کس طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کے مطابق ڈارمے کے بہت سے سین بالکل سچ پہ مبنی ہیں۔ ’اصل زندگی کے اصل واقعات ہیں، جو کبھی تو خبر بن جاتے ہیں، مگر اکثر خبر بھی نہیں بنتے۔‘

سائرہ نے مزید کہا کہ انہیں خوشی ہوئی کہ ڈراما نشر ہونے پر لوگوں نے اسے پسند کیا۔ ’نادیہ (مصنفہ) کے ساتھ کی گئی تین چار سالہ محنت رنگ لے آئی۔‘

تو ہمارے پیارے قارئین اور ناظرین ڈراما دیکھتے رہیں۔ یہ ایک سچی کہانی ہے جو بتا رہی ہے کہ کہانی زمین کی کوکھ اور گود میں ہی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی زندگی اور ڈرامے میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ایک بار سوچ لیا کریں کہ زندگی کا کلیہ سب کے لیے ایک جیسا نہیں ہوتا۔

یہ ہر انسان کی انگلیوں کی پوروں کے نقشوں کی طرح منفرد و مختلف ہوتا ہے۔ اسی لیے شناختی کارڈ پہ پوروں کی شناخت سجائی جاتی ہے۔ فطرت کی اس شناخت کو پہچان کر جییں کہ آپ اپنی ذات میں سب سے منفرد ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی