برطانیہ میں جنسی استحصال سے متعلق گروہ (گرومنگ گینگ) کے خلاف قومی سطح پر کی گئی ایک رپورٹ کی محقق نے انکشاف کیا ہے کہ متاثرہ بچوں کے پرانے ریکارڈ میں ’پاکستانی‘ کا لفظ کریکشن فلوئیڈ سے مٹا دیا گیا تھا۔
بارونس لوئس کیسی، سوموار کو گرومنگ گینگز پر جن کی قومی آڈٹ رپورٹ شائع ہوئی ہے، کا کہنا ہے کہ کچھ ’بظاہر نیک نیتی رکھنے والے‘ افراد نے نسل اور قومیت سے متعلق معلومات اس لیے چھپائیں کہ انہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے ’نسل پرستوں کو مزید مواد‘ ملے گا۔
سکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بارونس کیسی نے کہا ’میں ایک متاثرہ بچے کی پرانی فائل کا جائزہ لے رہی تھی تو دیکھا کہ لفظ ’پاکستانی‘ کو سفید کریکشن مارکر سے مٹا دیا گیا تھا۔ مجھے لگا کہ یہ کام کرنے والے نے لاشعوری طور پر انگلش ڈیفنس لیگ جیسے گروہوں کو ہتھیار دے دیا جو ہر ہفتے اس شہر میں آ کر مظاہرے کرتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’مسئلہ یہ ہے کہ لوگ نسل پرست کہلانے سے ڈرتے ہیں۔ اگر اچھے لوگ مشکل سچائیوں کو تسلیم نہیں کریں گے تو برے لوگ ان کا فائدہ اٹھائیں گے، اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں بطور معاشرہ یہ ذمہ داری لینی ہو گی۔‘
بارونس کیسی کا کہنا تھا کہ گرومنگ گینگ میں ملوث افراد کی نسل اور قومیت کے حوالے سے درست اعدادوشمار جمع نہ کرنا برطانوی پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے اور اس سے نہ صرف سچائی چھپتی ہے بلکہ مجرموں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
ان کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ 16 سال سے کم عمر لڑکیوں سے جنسی تعلق قائم کرنے والے افراد پر سخت الزامات عائد کیے جائیں، اور ان کے خلاف الزامات کو کسی صورت کم نہ کیا جائے۔
بارونس کیسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’اگر ہم نے برسوں پہلے ہی ان لڑکیوں کو بے راہ رو سمجھنے کے بجائے بچوں کے طور پر دیکھا ہوتا جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اگر ہم نے نسل پر اعدادوشمار اکٹھے کیے ہوتے، اور تسلیم کیا ہوتا کہ بطور نظام ہم ناکام ہوئے ہیں، تو شاید ہم آج اس مقام پر نہ ہوتے۔‘
برطانوی وزیر داخلہ یوویٹ کوپر نے رپورٹ کی 12 تجاویز کو فوراً قبول کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تجاویز میں قومی سطح پر ایک وقت محدود انکوائری اور ملوث افراد کی قومیت و نسل کے اعدادوشمار جمع کرنا لازمی قرار دینا شامل ہے۔
انہوں نے کہا: ’بارونس کیسی کی رپورٹ نہایت سنگین ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ کئی برسوں سے اٹھائے جانے والے خدشات کے باوجود قومی سطح پر مؤثر اور مضبوط ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا۔‘
کیسی کی رپورٹ کے مطابق تین پولیس فورسز سے حاصل کردہ مقامی ڈیٹا میں یہ بات سامنے آئی کہ جن افراد پر شبہ ظاہر کیا گیا ان میں ایشیائی اور پاکستانی نژاد مردوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ تھی۔
وزیر داخلہ نے تسلیم کیا کہ بعض ادارے نسل پرستی کے الزامات یا کمیونٹی میں تناؤ سے بچنے کے لیے اس موضوع سے ہی گریز کرتے رہے۔
کنزرویٹو پارٹی کی رہنما کیمی بیڈینوک نے کہا ’تحقیقات کا آغاز ان شہروں سے کیا جانا چاہیے جو اس مسئلے کے مراکز رہے ہیں، جیسے بریڈفورڈ اور روچڈیل۔ وزیراعظم کی جانب سے اس معاملے پر تاخیر افسوسناک ہے۔‘
انہوں نے زور دیا کہ اس قومی انکوائری کا مقصد انکار، مزاحمت اور قانونی پیچیدگیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے۔
© The Independent