اگر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اگلی عالمی جنگ کیسی ہو گی، تو ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ یوکرین میں کیا ہو رہا ہے۔
جس طرح دوسری عالمی جنگ کی فضائی بمباری کو اس سے دو سال قبل ہی ہسپانوی خانہ جنگی میں دیکھا جا سکتا تھا اور جس طرح بوئر جنگ نے برطانوی فوج کی تنظیم میں خامیاں ظاہر کیں، جنہیں پہلی عالمی جنگ تک درست کرنا پڑا (جب نئی خامیاں سامنے آئیں)، بالکل اسی طرح ہم آج حالیہ حالات میں جھانک کر مستقبل کے ایک ایسے یورپی تنازعے کی تیاری کر سکتے ہیں، جو اب ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔
یہ 21 ویں صدی کی پہلی ’جدید‘ جنگ قرار دی جا سکتی ہے، جس میں کئی نئی اور ارتقا پذیر ٹیکنالوجیز کو استعمال کیا جا رہا ہے اور وہ بھی تباہ کن انداز میں۔
سب سے واضح ٹیکنالوجی ڈرون ہے – سستا اور انتہائی مؤثر، بشرطیکہ اس کے سگنلز جام نہ کیے جائیں۔ مگر اور بھی ذرائع ہیں، جیسے سائبر حملے جو ریاستی اداروں، غیر سرکاری پراکسیز اور خالص مجرمانہ گروہوں کی طرف سے کمپنیوں اور قومی اداروں پر کیے جاتے ہیں، جو لوٹ مار میں حصہ داری کے بدلے فوج کی مدد کے لیے کرائے پر تیار ہو سکتے ہیں۔
ہم نے حالیہ برسوں میں دیکھا ہے کہ سائبر حملے نیشنل ہیلتھ سروس، بینکوں اور حالیہ طور پر ریٹیلرز کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں اور وہ کسی فضائی حملے سے کم تباہ کن نہیں۔ روس اور یوکرین جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر شاید ہی ہوا ہو اور یہ ابتدائی اندازے کہ یہ دوسری عالمی جنگ کی طرز پر ٹینکوں کی جھڑپیں ہوں گی، جلد ہی ختم ہو گئے۔
بے رحمانہ غزہ جارحیت میں مستقبل کی لڑائیوں کے اسباق اتنے واضح نہیں، سوائے اس کے کہ اسرائیلی ’آئرن ڈوم‘ سسٹم ایرانی میزائل حملوں کے خلاف تقریباً مکمل طور پر مؤثر ثابت ہوا، اور یوں آیت اللہ کو خوف کی علامت کے طور پر غیر مؤثر کر دیا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے لیے ایسا دفاعی نظام چاہتے ہیں، جو قابلِ فہم ہے کیونکہ امریکہ نے اسرائیل کے اس چھوٹے ورژن کو ڈیزائن کیا تھا۔
لہٰذا، جنگ کا انداز بدل رہا ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ برطانوی حکومت اس تبدیلی سے باخبر دکھائی دیتی ہے۔
دفاعی وزیر اور لیبر پارٹی کی ایک غیر نمایاں لیکن کامیاب شخصیت جان ہیلی نے ’کی بورڈ وارئیرز‘ اور غیر انسانی فوجیوں کی مزید بریگیڈز کے لیے ایک ارب پاؤنڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، اس بار ایک ’نئے ڈیجیٹل ٹارگٹنگ ویب‘ کی تیاری کے لیے۔
زمینی فوج کو سیٹلائٹ، فضائی جاسوسی اور ڈرونز کے ذریعے حاصل شدہ انٹیلی جنس کے تحت بہتر طریقے سے ہدایت دی جائے گی۔
یہ انہیں دشمن کے حملے سے بچانے میں مدد دے گا اور مخالف کو نشانہ بنانے میں تیزی لائے گا۔ مصنوعی ذہانت بھی دیگر تمام نئی ایجادات کی طرح، ابتدا میں فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس کا فوجی استعمال یقینی طور پر اس کی ترقی کو تیز کرے گا، بالکل ویسے ہی جیسے ایک صدی قبل انسان کے ایجاد کردہ طاقتور طیاروں کے ساتھ ہوا تھا۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم ایک ایسی دنیا کا تصور کر سکتے ہیں جہاں انسانوں کی جگہ میدان جنگ میں ہمیونائڈ روبوٹس ہوں گے، ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے اور ان کے اوپر ڈرونز کے جتھے، جنہیں ہزاروں میل دور سے اے آئی فوجی ’دماغ‘ کنٹرول کر رہے ہوں گے۔
جس طرح تجارت اور صنعت میں انسان غیر ضروری (یا قابلِ تبدیل) بنتا جا رہا ہے، اسی طرح مستقبل کی سائبر جنگوں میں بھی انسان کا کردار ختم ہو جائے گا، سوائے اس کے کہ وہ صرف حملوں کا نشانہ بنیں گے یا جان سے جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنگیں شاید ماضی کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن ہوں گی، کیونکہ مصنوعی ذہانت سے تقویت یافتہ جنگی مشین کی ’پیداواری صلاحیت‘ کہیں زیادہ ہو گی۔
یہی وجہ ہے کہ دفاعی اخراجات پر بحث کچھ کم اہم ہو جاتی ہے: اگر کوئی ملک مستقبل کی دفاعی خریداری اور حکمت عملی کے بارے میں غلط فیصلے کرتا ہے تو جی ڈی پی کا جتنا بھی حصہ وہ غلط چیزوں پر خرچ کرے، فائدہ نہیں ہو گا۔
اگر رائل نیوی کے شاندار کوئن الزبتھ کلاس طیارے سستے ڈرونز کے سکواڈرنز کے سامنے غیر محفوظ ہیں، جو ان کے دفاع کو ناکام بنا سکتے ہیں، تو ہم خود کو اتنا ہی بےوقوف اور غیر محفوظ محسوس کریں گے جتنا اُس وقت ہوا تھا جب جاپانی فوج نے 1942 میں سنگاپور پر حملے کے دوران دنیا کی سب سے بڑی ساحلی توپوں کے پیچھے سے چکر لگا کر حملہ کیا اور بغیر مزاحمت کے شہر میں داخل ہو گئی تھی۔
صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کا ’گولڈن ڈوم‘ تقریباً 175 ارب ڈالر لاگت کا ہو گا۔ اگر ایسا ہے اور اگر یہ کام کرتا ہے (جو ابھی واضح نہیں)، تو یہ ایک سستا اور فائدہ مند سودا ہوگا۔
برطانیہ کا سٹریٹجک ڈیفنس ریویو پیر کو شائع ہونے والا ہے اور یہ بالکل وقت پر ہے۔ ہم اپنے محدود قومی وسائل کو اپنے دفاع کے لیے کس طرح استعمال کرتے ہیں، یہ اتنا ہی اہم ہے، جتنا یہ کہ خزانہ اس مقصد کے لیے کتنی رقم دینے پر آمادہ ہے۔
تاہم تاریخ کا مستقل سبق یہی ہے کہ جنگ روکنا اور اس سے باز رکھنا، لڑنے سے کہیں سستا ہے۔
© The Independent