لوگ دھوپ میں باہر جمع ہیں، فضا خوشگوار ہے، ہر چہرے پر مسکراہٹ ہے اور سب ایک دوسرے کو خوشی سے ہاتھ ہلا رہے ہیں لیکن اچانک قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ ہجوم میں دہشت کی لہر دوڑتی ہے، جیسے کوئی جھٹکا لگا ہو۔ یہاں جمع لوگ مڑتے ہیں اور بدحواس ہو کر دوڑ پڑتے ہیں، ایک نہ ختم ہونے والی سیڑھیوں سے نیچے کی طرف لڑھکتے چلے جاتے ہیں۔
چوٹی پر مسلح سپاہی نمودار ہوتے ہیں، مشین جیسی درستگی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے۔ ہم اس افراتفری میں کھنچتے چلے جاتے ہیں، بل کھاتی ہوئی بھیڑ کے ساتھ نیچے کی طرف بہتے ہوئے۔ مناظر آنکھوں میں نقش ہو جاتے ہیں۔ قدموں تلے کچلا ہوا بچہ۔ چلتے چلتے گولی کا نشانہ بننے والی ماں۔
نومولود کا جھولا چھوٹ جاتا ہے اور رفتار پکڑتا ہوا تیزی سے نیچے کی طرف لڑھکنے لگتا ہے۔ ایک خاتون کے چشمے ٹوٹ کر خون آلود چہرے پر ترچھے ہو جاتے ہیں، ان کا منہ ایک بے آواز چیخ میں کھل جاتا ہے۔
یہ فلمی تاریخ کے سب سے مشہور مناظر میں سے ایک کی تصویر کشی ہے۔ یوکرین کے تاریخی ساحلی شہر اوڈیسا کی سیڑھیوں پر نہتے شہریوں کا قتل عام۔ فوراً پہچان میں آ جانے والا اور بارہا حوالہ بننے والا یہ منظر سرگئی آئزن سٹائن کے شاہکار ’بیٹل شپ پوتمکن‘ کا مرکز ہے، جس کے رواں ماہ سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔
سینیما کے لیے ایک نیا معیار
بیٹل شپ پوتمکن نے سینیما کی جمالیاتی اور سیاسی، دونوں سطحوں پر ازسرِنو معیار قائم کیا۔
یہ فلم 1905 میں شاہی روسی بحریہ کے بحیرہ اسود میں موجود بیڑے میں ہونے والی بغاوت کی ڈرامائی تشکیلِ نو ہے، جو اس برس سلطنت میں پھیلنے والی گہری سماجی و سیاسی بے چینی کی ایک نمایاں لہر تھی۔
پہلے روسی انقلاب میں مزدور، کسان اور سپاہی غربت، آمریت اور عسکری شکست کے خلاف شدید مایوسی کے زیر اثر اپنے آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگرچہ زار اقتدار میں برقرار رہا، مگر اختلاف نے اسے محدود اصلاحات پر مجبور کیا، جو عوامی مطالبات سے کہیں کم تھیں۔
پوتمکن کی تاریخی بغاوت کی فوری وجہ خراب خوراک کے راشن پر احتجاج تھا۔ آئزن سٹائن اس پہلو کو فلم میں نمایاں کرتے ہیں، سڑتے گوشت پر رینگتے کیڑوں کے دل متلا دینے والے قریبی مناظر کے ذریعے۔
جب ملاح اس بدبودار خوراک کو کھانے سے انکار کرتے ہیں تو ان پر نافرمانی کا الزام لگا کر انہیں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سپاہی اپنے ساتھیوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیتے ہیں اور عملہ بغاوت پر اتر آتا ہے، بین الاقوامی یکجہتی کا سرخ پرچم لہراتے ہوئے علامتی طور پر اپنے رنگ مستول پر ٹھونک دیتا ہے۔
ویکولنچک نامی ایک ملاح، جو بغاوت کی قیادت میں شامل تھا، جھڑپ میں مارا جاتا ہے۔ عملہ اس کی لاش عوامی سوگ کے لیے اوڈیسا لے آتا ہے، جہاں فضا بتدریج کشیدہ ہو جاتی ہے۔ ملاحوں کے لیے عوامی حمایت بڑھتی ہے اور حکام مہلک طاقت کے ساتھ جواب دیتے ہیں، فوج کو بھیجتے ہیں اور اوڈیسا کی سیڑھیوں پر قتلِ عام ہوتا ہے۔
جوابی کارروائی میں پوتمکن شہر کے اوپیرا ہاؤس پر گولہ باری کرتا ہے، جہاں فوجی قیادت جمع ہے۔ جلد ہی وفادار جنگی جہازوں کا ایک دستہ بغاوت کچلنے کے لیے بڑھتا ہے۔ باغی ملاح لڑائی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، مگر دوسرے جہازوں کے ملاح فائر کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ باغیوں کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اور رفاقت کے اظہار میں پوتمکن کو گزرنے دیتے ہیں۔
یہاں آئزن سٹائن تاریخ سے ہٹ جاتے ہیں کیوں کہ حقیقت میں 1905 کی بغاوت ناکام بنا دی گئی تھی اور انقلاب دبا دیا گیا تھا۔
سیاسی اساطیر کی تشکیل
بیٹل شپ پوتمکن سوویت ریاست نے انقلاب کی 20ویں سالگرہ کے موقع پر بنوائی۔ نئی بالشویک حکومت سینیما کو عوامی شعور کی تشکیل کا طاقتور ذریعہ سمجھتی تھی، اور آئزن سٹائن، جو اس وقت بیس کی دہائی کے آخری برسوں میں تھے اور اپنے انقلابی تھیٹر کے کام کے باعث توجہ حاصل کر رہے تھے، کو سوویت اقتدار کے آغاز کی جشن منانے والی فلم بنانے کی ذمہ داری دی گئی۔
آئزن سٹائن ابتدا میں انقلاب کے بڑے واقعات پر مشتمل ایک وسیع، کئی حصوں کی فلم بنانا چاہتے تھے، مگر پروڈکشن حدود آڑے آئیں۔ چنانچہ انہوں نے پوتمکن کی کہانی کا انتخاب کیا، جس کے ذریعے جبر، اجتماعی جدوجہد اور انقلابی اتحاد کی تشکیل کو مختصر مگر موثر انداز میں دکھایا جا سکتا تھا۔
تیار شدہ فلم لفظی تاریخ کا سبق کم اور سیاسی اساطیر کی ایک نہایت اسلوبی تشکیل زیادہ تھی۔
دسمبر 1925 میں جب پوتمکن ماسکو کے بولشوئی تھیٹر میں پیش کی گئی تو مدعو ناظرین، جن میں کمیونسٹ شخصیات اور 1905 کی ناکام بغاوت کے سابق شریک بھی شامل تھے، سکریننگ کے دوران پرجوش تالیاں بجاتے رہے۔ سب سے زیادہ جوش اس لمحے دیکھا گیا جب جنگی جہاز کا عملہ سیاہ و سفید فلم میں ہاتھ سے رنگا ہوا شوخ سرخ پرچم لہراتا ہے۔
پذیرائی بھی، پابندیاں بھی
بیٹل شپ پوتمکن عالمی سطح پر ایک سنسنی بن گئی۔ فلم سازوں اور ناقدین نے اسے حقیقی معنوں میں انقلابی قرار دیا۔ چارلی چیپلن نے اسے ’دنیا کی بہترین فلم‘ کہا۔
مگر اسی اثر نے اسے خوفناک بھی بنا دیا۔ حکومتوں نے اس کی تصویروں میں موجود سیاسی شدت کو بھانپ لیا۔ جرمنی میں اسے سختی سے کاٹا گیا اور برطانیہ میں پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے باوجود اس کے پرنٹس گردش میں رہے اور فلم کی شہرت بڑھتی ہی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی سطح پر آئزن سٹائن کی بڑھتی ہوئی حیثیت انہیں اپنے ملک میں تحفظ نہ دے سکی۔ 1920 کی دہائی سے 1930 کی دہائی میں داخل ہوتے ہی اسٹالن دور کی ثقافتی پالیسیوں کا رخ تیزی سے ان کے خلاف ہو گیا۔ آئزن اسٹائن کا انداز سوشلسٹ ریئلزم کے نئے جمالیاتی تقاضوں سے بالکل مختلف تھا، جس میں واضح کہانیاں، ہیرو کردار اور دو ٹوک سیاسی پیغام مطلوب تھا۔
جہاں آئزن سٹائن کی خاص فلمی تکنیک مونتاژ تیز، جاندار اور سوچ کو ٹکر دینے والی تھی، وہیں سوشلسٹ ریئلزم سادہ کہانی، واضح پیغام اور آسان اخلاقی سبق چاہتا تھا۔ اسی وجہ سے ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ ان کی فلمیں مبہم، حد سے زیادہ تجرباتی اور سیاسی طور پر قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
ان کے کئی منصوبے روک دیے گئے، بعض ان کے ہاتھ سے لے لیے گئے۔ جو فلمیں وہ مکمل کر سکے، سراہیں تو گئیں، مگر کوئی بھی بیٹل شپ پوتمکن کے اثر تک نہ پہنچ سکی۔
ایک صدی گزرنے کے بعد بھی، جبر، جرات اور اجتماعی مزاحمت کا اس کا تصور ایسی توانائی کے ساتھ چمکتا ہے جو یاد دلاتا ہے کہ سینیما کیوں اہم ہے۔