کیا پاکستانی جامعات ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر سکتی ہیں؟

پاکستانی جامعات میں وسائل کی کمی کے علاوہ شدید انتظامی اور ساختی مسائل موجود ہیں۔ بیوروکریٹک مسائل ان کے علاوہ ہیں۔

طلبہ یونیورسٹی آف میانوالی کیمپس میں چہل قدمی کر رہے ہیں، یہ تصویر 17 جنوری 2024 کو لی گئی تھی (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

مجھے گذشتہ ہفتے سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں منعقدہ مطالعاتِ ابلاغ کی ایک بڑی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کی میزبانی ہر سال دنیا کی کوئی ایک جامعہ کرتی ہے۔ اس بار یہ فریضہ ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی نے نبھایا۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی بہترین جامعات میں 12ویں نمبر پر ہے۔

ایسی کانفرنس کی میزبانی جامعات کو بہت فائدہ دیتی ہیں۔ انہیں ایسی کانفرنس کے ذریعے اپنے وسائل، ٹیکنالوجی اور تحقیق دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ساتھ وہ نئے روابط بھی بناتی ہیں جو نہ صرف انہیں اکیڈیمک دنیا میں اچھا نام بنانے میں مدد دیتے ہیں بلکہ مالی امداد کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ ایسی کانفرنسوں کی میزبانی سے ان کے ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں میں نئے داخلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور دنیا کی بہترین فیکلٹی ان کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی بھی ظاہر کرتی ہے۔

ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی بھی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وِم کی وِم سکول آف کمیونیکیشن اور انفارمیشن کی مکمل تشہیر کر رہی تھی۔ یونیورسٹی کا مین کیمپس 490 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں قریباً 1400 فیکلٹی ممبران ہیں اور 37000 سے زیادہ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔

حیران کن بات یہ تھی کہ یونیورسٹی کے کسی گیٹ پر سکیورٹی گارڈ یا چیک پوسٹ موجود نہیں تھی۔ لوگ بغیر کسی جانچ پڑتال کے یونیورسٹی میں داخل ہو رہے تھے۔ یونیورسٹی کے عین درمیان عوامی بسیں چل رہی تھیں۔ کوئی بھی عمارت میں داخل ہونے والوں کی شناخت چیک نہیں کر رہا تھا۔

عمارتوں کے اندر جگہ جگہ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے میز، کرسیاں اور بنچ موجود تھے جہاں وہ آرام سے اپنا کام کر سکتے تھے۔ اطراف میں چھوٹے چھوٹے بریک آؤٹ روم بنے ہوئے تھے جہاں لوگ بیرونی شور شرابے سے دور چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں بیٹھ کر کام کر رہے تھے۔

میری کانفرنس جامعہ کی تین عمارتوں میں ہو رہی تھی۔ ایک عمارت کے باہر بڑا سا رجسٹریشن کاؤنٹر بنا ہوا تھا۔ وہاں رجسٹریشن کے بعد ہم اپنی مرضی کے سیشنز میں شرکت کر سکتے تھے۔ ہر عمارت کے مختلف کمروں اور سیمینار ہالز میں بیک وقت درجنوں سیشنز ہو رہے تھے۔

میرے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ کہیں بھی انتظامیہ کی بھاگ دوڑ تو دور انتظامیہ کا ایک بندہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ان کے کمرے اور ہال نت نئی ٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ وہاں ایسے سیشن منعقد کروانے کا انتظام پہلےسے چیک شدہ اور بہترین حالت میں موجود تھا۔ 

مجھے وہ دیکھ کر اپنی جامعہ یاد آئی جہاں بہترین سہولیات دستیاب ہونے کے باوجود روزمرہ کے لیکچر بھی انتظامیہ اور تکنیکی سٹاف کی بھاگ دوڑ کے بغیر نہیں ہو پاتے۔

یہاں ہم خود ہال میں چلے جاتے تھے۔ جنہوں نے اپنی تحقیق پیش کرنا ہوتی تھی وہ کنٹرول ٹیبل پر اپنے کمپیوٹر کو پروجیکٹر سے منسلک کرتے یا وہاں موجود کمپیوٹر میں اپنی پریزنٹیشن منتقل کرتے اور چند لمحوں میں ان کی پریزنٹیشن پروجیکٹر کے ذریعے سکرین پر نظر آ رہی ہوتی تھی۔ مائیک کا بٹن دباتے تھے اور وہ چل پڑتا تھا۔ ہمیں کسی کو بلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔

پاکستانی جامعات میں سب سے بڑا مسئلہ کمپیوٹر پروجیکٹر کے ساتھ منسلک کرنا ہے۔ اسی میں لیکچر کے 10 سے 15 منٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ کوئی غلطی سے میک بک استعمال کر رہا ہو تو اسے تو صاف انکار کر دیا جاتا ہے کہ آپ کا سسٹم یہاں نہیں لگ سکتا۔ یہاں سب کچھ پہلے سے تیار تھا۔ یونیورسٹی کے سسٹم پر پریزنٹ کرنا ہے تو وہاں کام کریں۔ اپنا سسٹم استعمال کرنا ہے تو اسے سسٹم کے ساتھ جوڑ لیں۔ ہر دیوار پر بڑی سی سکرین لگی ہوئی تھی جو پروجیکٹر کی سکرین دکھا رہی تھی تاکہ سیمینار ہال میں بیٹھا ہر شخص اپنی قریبی سکرین پر وہ مواد آسانی سے دیکھ سکے۔

یہ سب دیکھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ کیا کوئی پاکستانی جامعہ اس پیمانے کی کانفرنس منعقد کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ 

میرے ذہن میں کوئی ایسی جامعہ نہیں آئی جس کے پاس اس سطح کی میزبانی کے وسائل ہوں۔

ہماری جامعات میں وسائل کی کمی کے علاوہ شدید انتظامی اور ساختی مسائل موجود ہیں۔ بیوروکریٹک مسائل ان کے علاوہ ہیں۔ ایک چھوٹے سے کام کی منظوری میں مہینوں ضائع ہو جاتے ہیں۔ ایسی کانفرنسز کو منعقد کرنے کے لیے خود مختاری، بروقت فیصلے، بین الاقوامی روابط، فنڈنگ کی منظوری اور سفارتی روابط درکار ہوتے ہیں جو فی الحال ہماری جامعات کی طاقت سے باہر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ ملک میں سکیورٹی کے مسائل، سیاسی عدم استحکام اور خراب معیشت بھی ایسی کانفرنسوں کے انعقاد میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ 

بہت سے ممالک اپنے لوگوں کو پاکستان کے سفر کے حوالے سے محتاط رہنے کا کہتے ہیں۔ وہ یہاں آ بھی جائیں تو ان کے سفارت خانے انہیں مخصوص علاقوں تک ہی محدود رہنے کا کہتے ہیں۔

ان کانفرنسوں میں بڑی تعداد ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر کو اپنی جامعہ کی طرف سے یا تو جزوی فنڈنگ ملتی ہے یا بالکل نہیں ملتی۔ وہ نہ مہنگے ہوٹلوں میں رکنا چاہتے ہیں نہ مہنگے ریسٹورنٹس سے کھانا چاہتے ہیں۔ انہیں عام عوامی جگہوں پر جانے اور مقامی زندگی دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ ہم اپنے موجودہ حالات میں انہیں ایسے مقامات پر تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔

ہماری ویزہ پالیسی بھی ایسی کانفرنسوں کے انعقاد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 

اس کانفرنس میں انڈین سکالرز کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اگر یہ کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوتی تو شاید ان میں سے بہت سے لوگ اس میں شرکت نہ کر پاتے۔ انڈیا کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ 

آئندہ سال ایک بڑی کانفرنس ممبئی میں ہونے والی ہے۔ پاکستانی سکالرز ابھی سے پریشان ہیں کہ حالیہ جنگ کے بعد انہیں اس کانفرنس میں شرکت کے لیے انڈیا کا ویزہ نہیں مل سکے گا۔

ان تمام مشکلات کے باوجود ہم فی الحال شاید اس نوعیت کی کانفرنس پاکستان میں منعقد نہ کر سکیں لیکن ایسا کرنا ناممکن نہیں ہے۔ 

چند برس قبل یہی کانفرنس انڈیا کے شہر حیدرآباد میں منعقد ہوئی تھی۔ اس جامعہ سے بہتر رینکنگ کی جامعات پاکستان میں موجود ہیں۔ اگر اس جامعہ کو اس کانفرنس کی میزبانی کا موقع مل سکتا ہے تو ہمیں کیوں نہیں مل سکتا۔

ہماری جامعات کواپنے اندرونی اور بیرونی مسائل کا ادراک کر کےان کے حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب ایک دم نہیں ہو گا لیکن ہرروز درست سمت میں اٹھا ایک چھوٹا سا قدم ہمیں لمبے عرصے میں مستحکم ادارے بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

پھر ہم بھی ایسی کانفرنسوں کی میزبانی کر سکیں گے اور دنیا کے سامنے اپنے ملک، ثقافت، ادارے اور لوگوں کو لا سکیں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ