پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد اب دھول آہستگی سے بیٹھ رہی ہے۔ فتح کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ اب سماج کے مختلف شعبوں پر اس جنگ کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ کتنے جہاز گرے، کتنی تنصیبات کو نقصان پہنچا، کتنے لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، معیشت کو کتنا نقصان ہوا، وغیرہ وغیرہ، تاہم ایک متاثرہ شعبہ جس کے بارے میں کم بات کی گئی ہے، وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔
اس کشیدگی سے تعلیمی سال کے اہم اختتامی مرحلے پر ملک بھر کے لاکھوں طلبہ کی تعلیم میں خلل پڑا اور اس کے اثرات آنے والے مہینوں تک نظر آتے رہیں گے۔
جب حالات بد سے بدتر کے مرحلے تک پہنچے تو حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے نوٹیفکیشن آنے لگے۔ اسلام آباد، پنجاب اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے تعلیمی ادارے کئی دن تک بند کر دیے گئے۔ کچھ ادارے اب کھل گئے ہیں، کچھ میں ابھی تک آن لائن پڑھائی جاری ہے۔
اس جنگ کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے طلبہ، اساتذہ اور محققین کو شدید تعلیمی، نفسیاتی اور تحقیقی نقصان پہنچا ہے۔ بہت سی کلاسیں منسوخ ہوئیں، امتحانات ملتوی ہوئے اور تحقیقاتی مقالوں کے ڈیفنس بھی آگے بڑھائے گئے۔ اس کی وجہ سے بہت سے طالب علم اور اساتذہ اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق کام نہیں کر سکے۔
ہم ایسی صورت حال میں اجتماعی نقصان دیکھتے ہیں اور انفرادی سطح پر ہونے والے نقصان کو نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ وہی ذاتی تجربات سب سے زیادہ تکلیف دہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ اس کی مثال کرونا کی عالمی وبا کے دوران دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کی بندش سے لی جا سکتی ہے۔
موجودہ حالات میں بھی بار بار جنگ کے بگل بجنے، سکیورٹی خدشات اور تعلیم کے مستقبل سے جڑی غیر یقینی صورت حال نے ملک بھر کے عوام میں اور خاص طور پر طلبہ میں ایک ذہنی دباؤ اور بے چینی کی فضا پیدا کر دی تھی۔
خاص طور پر سرحدی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ شدید خوف و ہراس میں مبتلا تھے۔ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹںے کا فیصلہ کر پا رہے تھے اور نہ ہی کیمپس میں خود کو محفوظ سمجھ رہے تھے۔ اساتذہ بھی ذاتی اور پیشہ ورانہ دباؤ کا شکار تھے۔ ایک طرف انہیں اپنی اور اپنے خاندان کی فکر لاحق تھی اور دوسری طرف وہ تعلیمی تسلسل برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
جب ملک کے طول و عرض میں پھیلے شہروں کی فضاؤں میں انڈین ڈرون اڑنے لگے اور میزائل گرجنے لگے تو اس کا ذہنوں پر اثر ہونا لازمی ہے، خاص طور پر کچی عمر کے نوجوانوں کے ذہنوں پر منفی سائے پڑنا لازمی امر ہے۔
ہم ایسی صورت حال میں اجتماعی نقصان دیکھتے ہیں اور انفرادی سطح پر ہونے والے نقصان کو نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ وہی ذاتی تجربات سب سے زیادہ تکلیف دہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ اس کی مثال کرونا کی عالمی وبا کے دوران دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کی بندش سے لی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابتدائی مرحلے پر معلومات کی شدید کمی اور غیر مصدقہ ذرائع سے پھیلنے والی افواہوں نے صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔ پاکستانی میڈیا میں بھی کچی پکی اور غیر مصدقہ خبریں نشر ہونا شروع ہو گئی تھیں، جس کی وجہ سے طلبہ کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی شدید پریشان ہو گئے تھے۔ اس دوران بہت سے بچوں کا جو وقت ضائع ہوا، اس کی تلافی شاید کبھی نہ ہو سکے گی۔
ایسی صورتِ حال صرف انفرادی ذہنی کیفیت تک محدود نہیں رہتی بلکہ بتدریج پورے تعلیمی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جب تعلیمی سرگرمیاں بار بار متاثر ہوں، خوف اور غیر یقینی مستقل معمول بن جائیں تو اس کا نتیجہ ادارہ جاتی کمزوری، پالیسی کے انتشار اور قومی تعلیمی اہداف کی ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام پہلے ہی کئی مسائل کا شکار ہے۔ ایسے میں جنگ جیسے غیر متوقع حالات اس نظام کو مزید کمزور کر دیتے ہیں۔ اگر ہم ایک ترقی یافتہ، پائیدار اور فکری طور پر مضبوط معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو محفوظ، مستحکم اور غیر سیاسی بنانا ہو گا۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملکی سیاسی حالات میں استحکام آئے اور خطے میں امن کا فروغ یقینی بنایا جائے۔ سیاسی قیادت اور پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلیمی ادارے صرف درس گاہیں نہیں بلکہ قوم کی فکری بنیاد اور ترقی کا ستون ہیں۔ انہیں غیر یقینی حالات سے نکال کر ایک پائیدار، محفوظ اور باوقار تعلیمی ماحول دینا محض ایک انتظامی قدم نہیں بلکہ قومی بقا کی ناگزیر ضرورت ہے۔
اگر خطے میں امن لانے کی کوشش نہ کی گئی اور تعلیمی اداروں کو اسی طرح غیر یقینی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو اس کا نقصان صرف طلبہ یا اساتذہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دونوں ممالک کا فکری اور معاشی مستقبل بھی خطرے میں چلا جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔