ابن بطوطہ، جس نے مارکو پولو سے پانچ گنا زیادہ سفر کیا

تقریباً 30 سال پر محیط اپنے سفر کے دوران ابن بطوطہ نے لگ بھگ 117,000 کلومیٹر کا حیرت انگیز فاصلہ طے کیا۔

1878میں بنائی گئی ایک السٹریشن جس میں ابن بطوطہ کو مصر میں اپنے گائیڈ کے ہمراہ دکھایا گیا ہے (پبلک ڈومین)

ابن بطوطہ 24 فروری، 1304 کو مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے مشہور سفرنامے ’رحلہ‘ میں ایک بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق علمی اور ممتاز خاندان سے تھا۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں ’فقہ ہمارا آبائی پیشہ ہے۔‘

رحلہ کے مطابق ابن بطوطہ نے 1325 میں 22 برس کی عمر میں حج کے ارادے سے طنجہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔

اگرچہ وہ 1349 کے آخر میں اپنے وطن واپس لوٹ گئے تھے، مگر اس کے بعد انہوں نے مختلف علاقوں کی سیاحت شروع کر دی، جن میں غرناطہ اور سوڈان شامل ہیں۔

تقریباً 30 سال پر محیط اپنے اس سفر کے دوران ابن بطوطہ نے لگ بھگ 73,000 میل (117,000 کلومیٹر) کا حیرت انگیز فاصلہ طے کیا، جو آج کی دنیا کے 50 سے زائد ممالک پر محیط ہے۔

ان کے سفرنامے میں اس دور کے اسلامی دنیا کے بیشتر خطے اور دیگر علاقے شامل ہیں، سوائے شمالی یورپ کے۔

1355 میں وہ آخری بار مراکش لوٹے اور بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ واپسی پر انہوں نے اپنے مشاہدات، تجربات اور حکایات اندلسی عالم ابن جزی کے سامنے بیان کیں، جنہوں نے 1355 یا 1356 میں اسے تحریری صورت دی۔

ان کے سفرنامے کا اصل عنوان تھا، ’تحفۃ النظار فی غرائب الأمصار وعجائب الأسفار،‘ مگر یہ ’رحلۃ ابن بطوطہ‘ یا صرف ’رحلہ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

یہ کتاب محض جغرافیائی سفرنامہ نہیں بلکہ 14ویں صدی کے معاشرتی اور سیاسی حالات کا نادر آئینہ ہے، جس میں اقوام کی ثقافت، زبان، رسم و رواج، کھانے، لباس، تہوار، فنون اور مرد و زن کے تعلقات کی تفصیل ہے۔

ابن بطوطہ نے پہاڑوں، دریاؤں اور زراعت کا ذکر بھی کیا اور 60 سے زائد سلاطین اور 2,000 سے زائد مشہور شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔

اس طرح ان کی کتاب تاریخ کا اہم حوالہ بن گئی ہے۔

سفر کی ابتدا

ابن بطوطہ کے مطابق ایک رات مصر کے شہر فوہ میں انہوں نے خواب میں خود کو ایک بڑے پرندے پر سوار مختلف سرزمینوں پر اترتے دیکھا۔

انہوں نے مقامی شیخ سے اپنے خواب کی تعبیر جانچنے کا فیصلہ کیا۔ شیخ نے پیش گوئی کی کہ وہ یمن، عراق، ترکی اور ہندوستان کا سفر کریں گے۔

اس زمانے میں مشرق وسطیٰ میں مملوک سلطنت، اناطولیہ میں مختلف چھوٹی ریاستیں اور ایران، وسطی ایشیا اور برصغیر پر منگول ایلخانی سلطنت کا تسلط تھا۔

ابن بطوطہ نے شمالی افریقہ، مصر، فلسطین اور شام کا سفر کر کے 1326 میں اپنا پہلا حج مکمل کیا۔

پھر عراق، ایران، مشرقی افریقہ، یمن، عمان اور اناطولیہ (موجودہ ترکی) گئے، جہاں انہوں نے علانیہ، قونیہ، ارز روم، نقیہ اور بروصہ جیسے شہروں کا ذکر کیا۔

سفر کی جھلکیاں

مصر کے شہر دمیاط کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ’یہاں اکثر گھروں کی سیڑھیاں نیل تک جاتی ہیں۔ کیلے کے درخت بے شمار ہیں، اور ان کا پھل کشتیوں میں قاہرہ لایا جاتا ہے۔

’بھیڑ بکریاں دن رات آزاد گھومتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’دمیاط کی دیوار مٹھائی اور اس کے کتے بھیڑیں ہیں۔

’کوئی شخص شہر میں داخل ہو جائے تو حاکم کی اجازت کے بغیر نکل نہیں سکتا۔‘

اناطولیہ کے بارے میں لکھتے ہیں ’یہ سرزمین دنیا کی سب سے خوبصورت جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حسن باقی زمینوں پر الگ الگ تقسیم کیا ہے، وہ سب یہاں جمع کر دیا ہے۔

’یہاں کے لوگ سب سے حسین اور عمدہ لباس پہنتے ہیں۔ جب ہم پہنچے تو مرد و عورت سب نے ہمارا بےحد خیال رکھا۔

’یہاں کی عورتیں مردوں سے نہیں کتراتیں، اور جب ہم رخصت ہوئے تو وہ ایسے روئیں جیسے کوئی قریبی عزیز رخصت ہو رہا ہو۔‘

1332 میں انہوں نے بازنطینی بادشاہ اندرونیکوس سوم پالیو لوگوس سے ملاقات کی۔

چونکہ انہوں نے اپنی داستان خود نہیں لکھی بلکہ ابن جزی کو سنائی، اس لیے بعض جگہ اسلوب سادہ عوام جیسا ہو جاتا ہے اور کہیں کہیں وہ مبالغہ آمیز تفصیل بھی بیان کرتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض واقعات وہ پرانی کتابوں سے لے رہے ہیں۔

اس کے باوجود رحلہ کی شگفتہ اور دلکش زبان قاری کو جکڑ لیتی ہے۔

ہندوستان کا سفر

1333 میں ابن بطوطہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی پہنچے اور سلطان محمد بن تغلق کے دربار میں سات برس تک قاضی کے عہدے پر فائز رہے۔

مختلف شہروں میں قیام کے دوران انہوں نے مقامی خواتین سے شادیاں بھی کیں، جن میں عام اور امرا کی بیٹیاں شامل تھیں۔

سلطان محمد بن تغلق کی سخاوت اور غیر روایتی حکمرانی نے انہیں حیران کیا، مگر چونکہ سلطان بعض اوقات سخت اور غیر متوقع فیصلے کرتا تھا، اس لیے ابن بطوطہ ہمیشہ احتیاط سے پیش آتے۔

پھر سلطان نے انہیں 1341 میں چین کے سفیر کے طور پر روانہ کیا۔ 1345 میں ان کا جہاز کلکتہ (اس وقت صادقوان) کے قریب غرق ہو گیا۔

وہ بچ تو گئے مگر سازوسامان ضائع ہو گیا۔ اس کے بعد وہ ہندوستان، سری لنکا اور مالدیپ گئے، جہاں ڈیڑھ سال تک قاضی رہے۔

مالدیپ میں پردے کا رواج نہ تھا اور خواتین سربراہ مملکت بھی بغیر سر ڈھانپے رہتی تھیں۔

ابن بطوطہ نے بطور قاضی پردے کا حکم جاری کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

پھر وہ بنگال، برما، سماٹرا کے راستے چین گئے اور گوانگژو شہر پہنچے۔ انہوں نے چین کے جنوبی ساحل تک کا سفر کیا۔

مذہبی رسومات کا احوال

ابن بطوطہ نے چھ مرتبہ حج کیا۔ وہ تصوف کی طرف مائل تھے اور اکثر درویشوں کا لباس پہنتے۔ دمشق کو برکت کی جگہ اور اناطولیہ کو شفقت کی سرزمین کہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تصوف کے خانقاہی نظام، صوفی بزرگوں کی دعائیں اور ایرانی صوفی شیخ قطب الدین حیدر کے مریدوں کا آہنی انگوٹھیاں پہننا، یہ سب ان کے مشاہدات کا حصہ ہیں۔

انہوں نے مسلم و غیر مسلم علاقوں کا بھی سفر کیا۔ چین میں مسلمانوں کے اذان دینے کا ذکر، دمشق میں اموی مسجد کا ایک حصہ گرجا میں تبدیل ہونا، ہندوستان اور مالے میں ہندو اور بدھ مت کے ماننے والوں کا احوال، یہ سب تاریخ کے اہم ریکارڈ ہیں۔

عورتوں کا مقام

انہوں نے افریقہ کے مغربی حصے میں ماں کے نام سے نسب و وراثت طے کرنے کا رواج دیکھا۔

ترک خواتین مردوں کی طرح گھڑسواری اور تجارت کرتیں اور چہرے کا پردہ نہ کرتیں۔

مالدیپ میں شوہر کے چلے جانے پر بیوی کو چھوڑ دیا جاتا اور مقامی خواتین پردہ نہیں کرتیں۔

کھانے اور رسوم

سائبیریا میں پہلے کتوں کو کھانا دیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں شادی کی تقریبات 15 دن چلتی رہتی ہیں۔

انہوں نے ہندوستان میں آم کھایا اور اس کا تقابل سیب سے کیا اور عمان میں دھوپ میں سکھائی مچھلی کا ذائقہ چکھا۔

ورثہ

ابن بطوطہ کی رحلہ کو بعد میں مشرق و مغرب میں ترجمہ کیا گیا۔ کچھ ناقدین کے مطابق بعض جگہ وہ پرانی کتابوں سے ماخوذ روایات بھی بیان کرتے ہیں۔

تاہم، 19ویں صدی میں مغرب میں انہیں شہرت ملی۔ مراکش نے 1996-97 کو ابن بطوطہ کا سال قرار دیا اور طنجہ میں ان کا میوزیم قائم ہوا۔ دبئی میں ان کے نام کا شاپنگ مال موجود ہے۔

قابل ذکر بات یہ کہ ابن بطوطہ مارکو پولو سے کہیں زیادہ ممالک گئے اور اپنے سفرنامے میں انسانی رویوں اور روایتوں کی وسعت دکھائی۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے دی کنورسیشن پر چھپی اور اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ