انڈیا پاکستان کشیدگی: جنگجو تنظیموں کے بیانات کا مقصد کیا؟

ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ ٹی ٹی پی نے پاکستان کی حمایت کا اعلان نہیں کیا جبکہ بی ایل اے نے انڈیا کے حق میں بیان دیا۔

اگر ماضی میں دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کی حد تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اس نے اسلام آباد کی حمایت کا اعلان کیا تھا (اے ایف پی)

دو روایتی ہمسایہ حریفوں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تین ہفتے کی شدید کشیدگی اور چار دن کی لڑائی کو ہر کسی نے اپنی عینک سے دیکھا لیکن پاکستان میں سرگرم ریاست مخالف عسکریت پسند تنظیموں نے اسے اپنے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان میں سرگرم دو بڑی کالعدم عسکریت پسند تنظیموں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اور جنگ کے دوران اپنی کارروائیاں اور بیان بازی برابر جاری رکھیں۔ پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹینیٹ جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا کہ جنگ کے دوران ان تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا جو بقول ان کے اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تنظیموں کو انڈیا سے ہدایات اور مدد ملتی ہے۔ البتہ اس بابت انہوں نے کوئی زیادہ معلومات شیئر نہیں کی تھیں۔  

اس تناظر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان فوج کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے پاکستان کو بہاولپور اور دیگر مقامات پر مدارس پر حملوں کا ذمہ دار ٹہرایا۔ بیان میں الٹا الزام پاکستان پر لگایا گیا کہ ان کی جانب سے ان مدارس میں علما کو نشانہ بنانے میں انڈیا کو مدد فراہم کی گئی ہے۔ مبصرین اس الزام کو بےبنیاد بیان گردانتے ہیں۔

اسی طرح کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جاری بیان میں کھل کر انڈیا کی حمایت کا اعلان کیا گیا اور حتٰی کہ انڈیا کو پاکستان پر حملے میں مدد کی بھی پیش کش کی گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ خطے میں اب ایک نیو آرڈر ناگزیر ہوچکا ہے۔ مصبرین کے مطابق تقریبا یہی یعنی ’نیو نارمل‘ کی بات انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ روز قوم سے خطاب میں بھی کی۔

پاکستان کی جانب سے بارہا یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ بی ایل اے کو بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے انڈیا کی جانب سے حمایت ملتی ہے اور کچھ مواقعوں پر پاکستان نے اس حوالے سے انڈیا کو ثبوت فراہم کرنے کے دعوے بھی کیے ہیں۔ البتہ بی ایل اے اس خیال کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ان کی مزاحمتی تحریک کسی ریاست یا طاقت کی پراکسی نہیں ہے۔

اگر ماضی میں دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کی حد تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اس نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس کی ایک مثال 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے دوران اس کی جانب سے پاکستان کی حمایت کا اعلان تھا۔

دی لانگ وار نامی جریدے کے مطابق 2008 میں ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ان کی لڑائی اگرچہ فوج کے ساتھ بھی ہے لیکن پاکستان کے خلاف کسی کی جارحیت قبول نہیں کریں گے۔

جریدے کے مطابق اس وقت ٹی ٹی پی نے انڈیا کے مختلف علاقوں میں خودکش حملہ آوروں سمیت جنگجوؤں کو بھیجنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

روزنامہ دی نیوز کے ساتھ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے جریدے نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ بیت اللہ محسود نے کہا تھا کہ کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ’ہم انڈیا کے خلاف پاکستان فوج کے شانہ بشانہ نہیں لڑ سکتے کیونکہ ہمیں پاکستان کی بقا عزیز ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ تناظر میں القاعدہ برصغیر کی جانب سے بھی جاری بیان کو مبصرین کی جانب سے بھی اہم سمجھا جا رہا ہے جس میں انڈیا کے خلاف اس نے ’جہاد‘ کا اعلان کیا ہے۔ جہاد اینڈ ٹیررزم تھریٹ مانیٹر نامی ادارے کے مطابق القاعدہ برصغیر نے اپنے بیان میں لکھا کہ انڈیا کے پاکستان میں چھ مقامات کو جن میں مدارس بھی شامل تھے، نشانہ بنایا گیا ہے جس میں بقول اس کے معصوم لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔

بیان کے مطابق انڈیا کے خلاف ‘جہاد’ شروع کرنے کے اعلان کے ساتھ کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ کوئی پہلی بار جارحیت نہیں کی گئی بلکہ اس سے پہلے بھی ہوچکی ہے۔

شدت پسند تنظیموں کے بیانات

عبدالسید سویڈن میں مقیم محقق ہیں جو جنوبی ایشیا اور خصوصی طور پر پاکستان و افغانستان میں شدت تنظیموں کے حوالے سے کئی تحقیقی مقالے لکھ چکے ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں ریاست مخالف پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کا ردعمل دلچسپی اور توجہ کا حامل ہے۔

عبدالسید نے بتایا کہ اس حوالے سے سب سے پہلا ردعمل القاعدہ کی علاقائی شاخ القاعدہ برصغیر کی جانب سے سات مئی کو سامنے آیا تھا جس میں عسکریت پسندوں پر زور دیا گیا کہ وہ بھارت کے خلاف اس جنگ میں شامل ہوں۔

اسی طرح عبدالسید کے مطابق ’القاعدہ برصغیر کا یہ بیان اس لحاظ سے اہم تھا کہ وہ عموماً اپنے بیانات میں پاکستان کی فوجی قیادت اور حکومت کو نشانہ بناتی ہے اور عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اس بیان میں اس روایتی طرزِ بیان سے گریز کیا گیا۔‘

اس کا مقصد عبدالسید کے مطابق انڈیا کے خلاف مشتعل پاکستانی عوام کی ہمدردی حاصل کرنا تھا، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ اگرچہ ان کی اصل جنگ فوج اور حکومت کے خلاف ہے، لیکن بھارت بھی ان کا ہدف بن سکتا ہے۔

ٹی ٹی پی کے حوالے سے عبدالسید نے بتایا کہ اگلے روز یعنی آٹھ مئی کو ٹی ٹی پی نے حالیہ کشیدگی پر ایک رسمی بیان جاری کیا جس میں انڈیا کے حملوں کے دوران اموات پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

تاہم، عبدالسید کے مطابق ’ٹی ٹی پی کا یہ بیان انڈیا کی بجائے زیادہ تر پاکستانی فوج کے خلاف تھا جس میں فوج پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے اس حملے کے حوالے سے انڈیا کو معلومات فراہم کیں۔‘

عبدالسید سے جب پوچھا کہ 2008 میں ٹی ٹی پی کے انڈیا مخالف بیان اور اب قدرے حمایت کی وجہ کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کی ممکنہ وجہ بعد کے برسوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کو پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات ہیں، جن کی بنا پر وہ اب داخلی و خارجی دونوں دشمنوں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کو اپنا اولین ہدف تصور کرتے ہیں۔

اس خطے میں عبدالسید کے مطابق نام نہاد دولت اسلامیہ کی مقامی شاخ داعش خراسان نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر ابتدائی بیان میں افغان طالبان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے دونوں ممالک کو جنگ سے گریز کی اپیل پر تنقید کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ داعش خراسان نے افغان طالبان پر تنقید کرتے ہوئے ان کے مخالف شدت پسندوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔

تاہم عبدالسید کے مطابق اب تک ان کی جانب سے پاکستان کے حق میں یا اس کی حمایت میں کوئی براہِ راست بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

عبدالسید نے بی ایل اے کے بارے میں بتایا کہ بے ایل اے کی طرف سے انڈیا کی حمایت میں بیان نئی بات نہیں ہے۔

مشتاق یوسفزئی پشاور میں مقیم سینیئر صحافی اور شدت پسندی کی رپورٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلگام کے بعد کشیدگی اور پھر انڈیا کی جانب سے حملہ اور پاکستان کی جواب کارروائی میں کامیابی کی شدت پسند تنظیموں کو توقع نہیں تھی۔

مشتاق یوسفزئی کے مطابق یہ معاملات ٹی ٹی پی سمیت باقی پاکستان مخالف تنظیموں کے لیے اچھی خبر نہیں ہے جب اس معاملے کے حل میں امریکہ بھی سامنے آیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’امریکہ نے انڈیا اور پاکستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے اور اس سے پاکستان ریاست مخالف تنظیموں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘

دوسری جانب اس ساری کشیدگی میں چین، پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی کابل میں سہہ فریقی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں پاکستان اور افغانستان کے مابین بہتر تعلقات میں کافی پیش رفت بتائی جا رہی ہے۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور طالبان کے درمیان افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے در پردہ ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ اتفاق رائے 10 مئی کو کابل میں پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان محمد صادق خان کے درمیان ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے دوران طے پایا۔ تاہم اس قسم کے معاہدے کا سرکاری طور پر کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

حکومتوں کی طرح پاکستان میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں نے حالیہ کشیدگی کو اپنے اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق