بی ایل اے مچھ حملہ، سات سکیورٹی اہلکار جان سے گئے: پاکستان فوج

آئی ایس پی آر کے مطابق مچھ میں کالعدم بی ایل اے نے سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا ہے۔

11 اگست، 2018 کو بلوچستان کے علاقے دالبدین میں سکیورٹی اہلکار ایک بم دھماکے کی جگہ پر موجود ہیں (اے ایف پی)

پاکستان فوج نے منگل کو ایک بیان میں بتایا کہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں سات اہلکار جان سے گئے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق مچھ کے علاقے میں یہ حملہ انڈین ایما پر کام کرنے والی کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے کیا۔

جان سے جانے والے اہلکاروں میں صوبیدار عمر فاروق (عمر 42 سال، کراچی)، نائیک آصف خان (عمر 28 سال، کرک)، نائیک مشکور علی (عمر 28 سال، اورکزئی)، سپاہی طارق نواز (عمر 26 سال، لکی مروت)، سپاہی واجد احمد فیض (عمر 28 سال، باغ)، سپاہی محمد عاصم (عمر 22 سال، کرک)، سپاہی محمد کاشف خان (عمر 28 سال، کوہاٹ) شامل ہیں۔

بیان کے مطابق علاقے میں سرچ اور کلیئرنس آپریشن جاری ہے تاکہ کسی بھی دہشت گرد کو فرار ہونے کا موقع نہ ملے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ حملے میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے واقعے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم آفس سے منگل کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’ایسی بزدلانہ کارروائیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔‘

دوسری جانب ایک سینیئر مقامی سرکاری افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، وہ ایک قافلے کا حصہ تھی جو ایک سکیورٹی آپریشن کے لیے جا رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ حملے میں پانچ دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ میں ایک فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

یہ حملہ دوپہر کے وقت ایک پہاڑی علاقے میں ہوا، جو کوئلے کی کانوں سے مالا مال ہے اور جہاں علیحدگی پسند گروپ، خاص طور پر بی ایل اے، ماضی میں بھی متعدد حملے کر چکے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق یکم جنوری سے اب تک بلوچستان اور ملحقہ خیبرپختونخوا میں مسلح گروپوں کے حملوں میں 200 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان