خلائی پتھر کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں کے مطابق جون میں امریکی ریاست جارجیا کے ایک گھر پر گرنے والا شہاب ثاقب ہماری زمین سے بھی قدیم ہے۔
جارجیا کے جنوب مشرقی علاقے کے لوگ 26 جون کو اس وقت حیرت زدہ ہو گئے جب ایک آگ کا گولہ آسمان کو چیرتا ہوا زمین پر آ گرا۔
شہاب ثاقب کے ٹکڑے ہنری کاؤنٹی کے شہر مکڈونا میں ایک مکان کی چھت سے ٹکرا کر عمارت کے اندر گھس گئے جس سے چھت میں گالف بال جتنا سوراخ اور فرش میں ڈینٹ پڑ گیا۔
یونیورسٹی آف جارجیا کے فرانکلن کالج آف آرٹس اینڈ سائنسز کے شعبہ ارضیات کے محقق سکاٹ ہیریس اس پتھر کے ٹکڑوں کا مطالعہ کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ یہ شہاب ثاقب 4.56 ارب سال پہلے تشکیل پایا جبکہ زمین کی عمر تقریباً 4.543 ارب سال مانی جاتی ہے۔
ہیریس نے یونیورسٹی کے جاری کردہ بیان میں کہا: ’یہ مخصوص شہاب ثاقب جو فضا میں داخل ہوا، زمین تک پہنچنے سے پہلے ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جانچنا ہوگا کہ یہ پتھر کس قسم کا ہے اور یہ کس گروپ کے شہابیوں سے تعلق رکھتا ہے۔‘
آپٹیکل اور الیکٹران مائیکروسکوپی سے تجزیے کے بعد ہیریس کا خیال ہے کہ یہ کم دھات والا عام کونڈرائٹ (Chondrite) ہے۔
ان کے مطابق یہ پتھر مریخ اور مشتری کے درمیان مین ایسٹرائیڈ بیلٹ میں موجود شہابیوں کے ایک گروپ سے تعلق رکھتا ہے جس کا تعلق تقریباً 47 کروڑ سال پہلے ایک بڑے شہابیہ کے ٹوٹنے سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس تقسیم کے بعد کچھ ٹکڑے زمین کے راستے والے مدار میں آ گئے، اور اگر کافی وقت مل جائے تو سورج کے گرد ان کا مدار اور زمین کا مدار ایک ہی مقام اور وقت پر آ ملتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ میں گرنے والے شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کی آواز اور جھٹکا قریب سے چلنے والی گولی کے برابر تھا۔ مکان کے مالک نے ہیریس کو بتایا کہ وہ اب بھی اپنے ڈرائنگ روم میں اس ٹکراؤ کے بعد بچا ہوا خلائی گرد دیکھ رہے ہیں۔
ہیریس کے بقول: ’میرا خیال ہے کہ انہوں نے ایک ساتھ تین آوازیں سنیں، ایک چھت سے ٹکراؤ، دوسری ایک ہلکی سی سونک بوم کی آواز اور تیسری فرش سے ٹکرانے کی آواز۔ جب یہ فرش سے ٹکرایا تو اتنی توانائی پیدا ہوئی کہ اس نے کچھ خلائی مواد کو باریک گرد میں بدل دیا۔‘
اس شہاب ثاقب کو ’مکڈونا‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ جارجیا کی تاریخ میں برآمد ہونے والا 27واں شہابیہ ہے۔
ہیریس کے مطابق: ’پہلے ایسا کچھ دہائیوں میں ایک بار ہوتا تھا لیکن اب 20 سالوں میں کئی بار ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور اب عوام کی معلومات کی بدولت ہم مزید شہابئے برآمد کر پائیں گے۔‘
علاقے میں گرنے والے اس شہابئے کے مزید ٹکڑے کارٹرس وِل کے ٹیلَس سائنس میوزیم میں عوام کے لیے نمائش پر رکھے جائیں گے۔
© The Independent