طالبان کی پابندیوں کے باوجود گھروں میں روبوٹ تیار کرتی افغان لڑکیاں

امید کی آوازیں نامی گروپ کی سربراہ 25 سالہ اسرار پارسا نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ یونیورسٹی پر پابندی نے مایوسی کی ایک لہر پیدا کر دی۔ لیکن انہوں نے اور ان کیساتھی طالبات نے فیصلہ کیا کہ وہ ہار نہیں مانیں گی۔

ان خواتین کے حصول تعلیم کا سلسلہ دسمبر 2022 میں منقطع ہو گیا جب طالبان کی پابندی نے انہیں پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کر دیا (انڈپینڈنٹ فارسی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کی شدید گرمی میں وہ نوجوان خواتین جنہیں گذشتہ تین سال سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا، ایک گھر میں اکٹھی ہو کر نئے منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔

خواتین کے اس گروپ نے اپنے آپ کو ’امید کی آوازیں‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اس گروپ کی ارکان سابق کمپیوٹر سائنس دان ہیں جنہوں نے حصول تعلیم کا سلسلہ ترک کرنے سے انکار کر دیا حالاں کہ طالبان نے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر سخت پابندی لگا رکھی ہے۔

یہ خواتین انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے اس مضمون سے دوبارہ جڑ رہی ہیں جسے وہ کبھی یونیورسٹی میں پڑھا کرتی تھیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ان کے لیے پارک میں چہل قدمی بھی ممنوع ہے، انہوں نے بند دروازوں کے پیچھے سیکھنے والوں کی ایک کمیونٹی بنا لی ہے۔

ان خواتین کے حصول تعلیم کا سلسلہ دسمبر 2022 میں منقطع ہو گیا جب طالبان کی پابندی نے انہیں پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ تمام نوجوان خواتین ایک نجی افغان یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کے دوسرے سمسٹر میں تھیں۔ ابتدا میں وہ اس امید سے جڑی رہیں کہ عوامی غصہ اور بین الاقوامی دباؤ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دے گا۔ اس کے برعکس طالبان نے، جنہوں نے 2021 میں اقتدار سنبھالا، مزید سخت فرمان جاری کیے۔ خواتین پر پابندیاں مزید سخت کر دیں اور ان کی زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیا۔

امید کی آوازیں نامی گروپ کی سربراہ 25 سالہ اسرار پارسا نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ یونیورسٹی پر پابندی نے مایوسی کی ایک لہر پیدا کر دی۔ لیکن انہوں نے اور ان کی 20 ساتھی طالبات نے فیصلہ کیا کہ وہ ہار نہیں مانیں گی۔ انہوں نے گھر میں تعلیم جاری رکھنے کے لیے آن لائن تعلیمی ذرائع کا سہارا لیا۔

اس کے بعد سے اس ٹیم نے سیکھنے، آگے بڑھنے اور خوابوں کو زندہ رکھنے کی خواہش کے تحت کئی منصوبے مکمل کیے۔ ان کی کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے دو روبوٹ مکمل طور پر خود تیار کیے۔ روبوٹ بنانے پر تقریباً 30 ہزار افغانی (تقریباً 430 ڈالر یا 330 پاؤنڈ) لاگت آئی۔ یہ اخراجات گروپ کے ارکان نے خود برداشت کیے۔

طالبان کے دور حکومت میں خواتین کو مرد سرپرست کے بغیر باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ٹیم کا ایک مرد رکن ہے۔ اسرار کے 28 سالہ بھائی نوید پارسا، جو کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ہیں۔ ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ ہے۔ وہ گروپ کے لیے ضروری کام انجام دیتے ہیں اور شہر سے سامان لے کر آتے ہیں۔

گروپ نے 20 ارکان کے ساتھ کام کا آغاز کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات اور بڑھتی ہوئی مایوسی کے باعث 14 ارکان نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اسرار نے وضاحت کی کہ ’ہمارا مقصد یہ تھا کہ اپنے دل میں امید کی روشنی کو زندہ رکھیں۔ حوصلہ مند رہیں اور مصنوعی ذہانت کے بارے میں سیکھیں۔ لیکن ٹیم کی زیادہ تر ارکان دل شکستہ ہو گئیں اور ہار مان لی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم کچھ ارکان نے گروپ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہدیہ احمدی کہتی ہیں کہ یونیورسٹیاں بند ہونے کے بعد وہ ڈپریشن اور بے چینی کا شکار ہو گئیں۔ لیکن گروپ کی مدد سے چھوٹے منصوبوں پر کام کرنا اور مصنوعی ذہانت کا استعمال سیکھنا 19 سالہ خاتون کے لیے زندگی کو بہتر محسوس کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔

گذشتہ دو برسوں میں ٹیم نے یونیورسٹی کے پہلے سال میں سیکھی گئی چیزوں کو استعمال کیا اور انہیں آن لائن ٹیوٹوریلز کے ذریعے آگے بڑھایا۔ انہوں نے دو روبوٹ اور کئی دیگر ڈیوائسز بنائیں۔ ان میں سے ایک روبوٹ 20 مختلف اشیا جن میں انسان بھی شامل ہیں، کو پہچان سکتا ہے۔ اس روبوٹ کو دور سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

ٹیم نے اس کی حرکت کو کچن کی میز پر آزمایا۔ یہ ریڈیو فریکوئنسی اور بلوٹوتھ کے ذریعے چلتا ہے اور چار مختلف ایپس سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اسرار کا کہنا ہے کہ اگر اسے مزید ترقی دی جائے تو یہ زلزلوں یا دھماکوں کے بعد تلاش اور امدادی کارروائیوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔

افغان خواتین کی ٹیم ڈرون بنانے پر بھی کام کر رہی ہے۔ اگر منصوبہ یہ کامیاب ہو گیا تو انہیں امید ہے کہ اسے کچرا جمع کرنے، ہنگامی حالات میں ادویات پہنچانے یا کابل میں چھوٹی اشیا کی ترسیل جیسے کاموں میں استعمال کیا جا سکے گا۔

اسرار، ہدیہ اور گروپ کی باقی ارکان کے لیے تاروں اور بیٹریوں کے ساتھ تجربے کرنا اور آن لائن اسباق سننا محض روبوٹکس یا مصنوعی ذہانت تک محدود نہیں۔ ایسے وقت میں جب طالبان کے قوانین کے تحت کسی خاتون کی آواز اور چہرہ بھی پردے کے لائق سمجھے جاتے ہیں، یہ نشستیں ان کی تنہائی کے ذہنی اور جذباتی بوجھ سے نمٹنے کا ایک ذریعہ ہیں۔

اسرار کہتی ہیں کہ یہ ملاقاتیں ’موجودہ حالات سے پیدا ہونے والے دکھ اور غم سے بچنے کا ایک راستہ ہیں۔‘ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ نشستیں امید فراہم کرتی ہیں۔ ’جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ ہمارے پاس اب بھی سیکھنے اور آگے بڑھنے کی طاقت موجود ہے۔‘

ہدیہ مزید کہتی ہیں کہ گروپ سے ہفتے میں دو سے تین بار ملاقات نے ان کی ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالا۔ وہ مصنوعی ذہانت کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ روبوٹ بناتی ہیں اور اپنے مستقبل کی امیدوں پر بات کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ خود کو اس وقت سے بہتر محسوس کرتی ہیں جب ان کی یونیورسٹی پہلی بار بند ہوئی۔ ’اپنے کام کے نتائج دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ اس سے ہمیں لگتا ہے کہ ہماری تعلیم ابھی ختم نہیں ہوئی اور ہم اب بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔‘

انہیں ایک اور افغان روبوٹکس ٹیم سے حوصلہ ملتا جسے ’افغان ڈریمرز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گروپ 2017 میں قائم ہوا اور اس نے ملک کے اندر اور بیرون ملک بہت زیادہ توجہ حاصل کی۔ ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور روبوٹکس پر توجہ مرکوز کرنے والی یہ ٹیم سماجی اور سیاسی پابندیوں کے باوجود صلاحیت اور امید کی علامت بن گئی۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور خواتین و لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار پر پابندی لگانے کے بعد ٹیم کے ارکان نے ملک چھوڑ دیا اور اب بیرون ملک رہ کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

’وائسز آف ہوپ‘ کے لیے افغان ڈریمرز ایک تحریک کا ذریعہ ہیں۔ لیکن ان کے برعکس، اسرار کی ٹیم کو اب تک کسی بیرونی ادارے سے کوئی تعاون نہیں ملا۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود، وہ امید رکھتی ہیں کہ ایک دن وہ اپنے کام کو بین الاقوامی نمائشوں میں پیش کریں گی اور انہیں اپنے خواب پورے کرنے کے لیے مواقع ملیں گے۔

طالبان نے 12 سال سے بڑی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سختی سے نافذ کر رکھی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ’شرعی قانون‘ پر عمل پیرا ہیں۔ یہ فرمان، خصوصاً وہ جو خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع سے محروم کرتے ہیں، وسیع پیمانے پر بین الاقوامی مذمت کا باعث بنے۔ لیکن طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے بین الاقوامی دباؤ کو ’بے معنی‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

گذشتہ چار برسوں میں، ملا ہبت اللہ نے بارہا ’شریعت اور اسلامی اصولوں کے دائرے میں تعلیم‘ کی اہمیت پر زور دیا۔ تاہم انہوں نے کبھی افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم یا روزگار کے موضوع پر بات نہیں کی۔

یہ مضمون سب سے پہلے ہمارے شراکت دار انڈپینڈنٹ فارسی میں شائع ہوا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین