انسانی حقوق کی نوجوان سویڈش علم بردار گریٹا تھنبرگ کو اب کون نہیں جانتا، جن کے غصے سے لال پیلے چہرے کو دیکھ کر خود امریکی صدر ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ گریٹا تھنبرگ کو اپنے غصے پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
امریکی اخبار صدر ٹرمپ کی جوانی کی رنگین کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں، یقیناً ٹرمپ نے نوجوان لڑکیوں کا یہ روپ نہیں دیکھا ہو گا، جو انہیں گریٹا تھنبرگ کی شکل میں نظر آیا۔
حال ہی میں گریٹا کو دنیا بھر کی شہہ سرخیوں میں جگہ ملی، جب یہ جی دار لڑکی اسرائیلی ننگی جارحیت کی پروا کیے بغیر فلسطین کے مظلوموں کی مدد کو نکلی۔
گریٹا نے سکینڈنیویا کی مشہور امدادی کشتی فریڈم فلوٹیلا کا سفر کیا، یہ کشتی کئی ممالک کے ساحلوں سے ہوتی ہوئی ابھی غزہ کے قریبی سمندر تک ہی پہنچی تھی کہ اسرائیل نے گریٹا اور اس کے ساتھیوں کو اغوا کرکے زبردستی جہازوں میں بٹھا کر یورپ ڈی پورٹ کر دیا۔
اگرچہ گریٹا امدادی سامان لے کر غزہ نہیں پہنچ سکیں، لیکن فریڈم فلوٹیلا کے اس دلیرانہ سفر کی بدولت دنیا بھر کی امدادی تنظیموں، سیاسی قوتوں، فیصلہ سازوں اور عوام کو غزہ میں اسرائیلی ظلم پر توجہ دینا پڑی۔
مگر سوال یہ ہے کہ گریٹا تھنبرگ کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟
یہ بھی تشویش طلب بات ہے کہ د نیا کے خوشحال ترین ملک سوئیڈن کی 22 سالہ خوبرو گریٹا مسکرانا کیوں بھول گئیں؟
سراپا احتجاج گریٹا کوئی کل کی بات نہیں، وہ 12-2011 سے غصے میں ہیں۔ گریٹا کو پہلی بار غصہ تب آیا جب انہوں نے اپنے سکول کی کلاس میں گلوبل وارمنگ کا نام سنا، انہیں پتہ چلا کہ زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور نسلِ انسانی خطرے میں ہے۔
سٹاک ہوم کی ایک مقامی اوپیرا گلوکارہ اور اداکار سوانتے تھنبرگ کی بیٹی گریٹا اس وقت آٹھ برس کی تھیں، جب انہوں نے گھر والوں اور دوستوں کو ماحول دوست بننے پر مجبور کیا۔
گریٹا کے والدین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی پر مزید ریسرچ کے بعد گریٹا کا غم و غصے اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے 11 برس کی عمر میں سب سے بول چال بند کر دی۔ وہ اپنے خاموش احتجاج کے دوران دنیا بھر کے رہنماوں کی بڑ بولیاں اور صفر ایکشن دیکھ رہی تھیں، لیکن کم عمری کے باعث انہیں کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ کیا کریں۔
بالآخر 2018 میں جب وہ 15 سال کی ہوئیں، تب انہیں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا راستہ مل گیا۔ گریٹا بجائے سکول جانے کے سویڈش پارلیمنٹ کے باہر پلے کارڈ لے کر بیٹھ گئیں، جس پر لکھا تھا موسمیاتی تبدیلی کے لیے سکول کی ہڑتال۔شروع میں یہ خاموش احتجاج سویڈش میڈیا کی زینت بنا مگر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر سے سکول کے بچوں نے گریٹا کی پیروی کرتے ہوئے ہر جمعے کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف سکولوں کی ہڑتال شروع کر دی۔
گریٹا کی مہم کو دنیا بھر کے میڈیا نے کوریج دی، گریٹا عالمی نشریاتی اداروں اور نامور میگزین کے سرورق پر آنے لگیں، لیکن کسی نے انہیں مسکراتے نہیں دیکھا۔ وہ انٹرویو دیتیں تو لگتا جیسے اگلے پچھلے حساب مانگ رہی ہوں، شدید غصے کے عالم میں منہ کھولتیں تو تیوری پر بل پڑ جاتے، چپ ہوتیں تو لگتا دانت نکوستے ہوئے سب دانشوروں کو کوس رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس احتجاج کے بعد 2019 میں گریٹا کو اقوام متحدہ کی کلائمٹ ایکشن کانفرنس میں بلایا گیا۔ میڈیا اور عالمی لیڈرز کے سامنے گریٹا کا خطاب کسی ٹریجڈی فلم کے جذبات سے بھرپور سین جیسا تھا، جب بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ انہوں نے عالمی رہنماؤں کو للکارا: ’آپ کی جرات کیسے ہوئی کہ آپ نے مجھ سے میرا بچپن، میرے خواب چھین لیے؟‘
اس خطاب کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گریٹا کو کہا تھا: ’چِل گریٹا چِل‘ (Chill Greta, Chill)۔ ویسے نوجوان لڑکیوں کو چِل کرنے کا مشورہ نیا نہیں۔ ٹرمپ کا مشورہ کسی دقیانوسی بزرگ خاتون کا تبصرہ محسوس ہوتا ہے، جن کے مطابق نوجوان لڑکیوں کو اپنی کم عمری کے مطابق بات کرنی چاہیے، ٹِک کر بیٹھنا چاہیے، نظریں نیچی اور آواز دھیمی رکھنی چاہیے۔
رہی بات غصے کی تو عمومی رائے یہی ہے کہ ’اینگری ینگ مین‘ تو وجیہہ مرد کی نشانی ہے، غصہ بھلا کہاں نوجوان لڑکیوں پر اچھا لگتا ہے؟ لڑکیاں تو نٹ کھٹ، شوخ، چنچل اور لاابالی سی اچھی لگتی ہیں۔
لڑکیوں سے وابستہ اس عمومی رویے کو چیلنج کرتی گریٹا تھنبرگ اب ترغیب دے رہی ہیں کہ دنیا کو اس وقت ان جیسی غصیلی نوجوان لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ اس بار غصے میں بپھری گریٹا تھنبرگ نے عالمی رہنماؤں سے سوال نہیں کیا بلکہ وہ غزہ کے مظلوموں کی مدد کے لیے خود سامنے آگئیں۔
انہوں نے لفاظی ہیرو بننے کے بجائے عملاً کرکے دکھایا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی پر مذمت کافی نہیں، وہ بغیر کسی حیل و حجت کے اسرائیل کو جوابدہ کرنے کے لیے خود فلسطین کے پانیوں میں جا پہنچیں۔
گریٹا کا غصہ وہ جذبہ ہے جو دنیا کو درمیانی راستوں پر نہیں چلنے دیتا۔ یہ غصہ ان نوجوان لڑکے، لڑکیوں کی آواز ہے جنہیں بچہ سمجھ کر کہہ دیا جاتا کہ تمھیں ابھی علم ہی کیا ہے۔ یہی وہ غصہ ہے جو حق اور باطل کی کشمکش کے درمیان نیوٹرل رہنے نہیں دیتا۔
یہ غصہ اب لڑکیوں کے لیے نیا فیشن ہے، کیونکہ گریٹا جیسی غصیلی لڑکیاں اس نئے جنگ زدہ دور کی دلکش، حسین، خوبصورت اور دلیر لڑکیاں ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔