اسرائیل نے گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کر دیا

اسرائیل نے منگل کو کہا ہے کہ غزہ جانے والی امدادی کشتی ’میڈلین‘ میں سوار گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔

اسرائیل نے منگل کو کہا کہ غزہ جانے والی امدادی کشتی ’میڈلین‘ کو قبضے میں لیے جانے کے بعد اس میں سوار سویڈش رضاکار گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کر دیا گیا۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایکس پر گریٹا کی دو تصاویر شیئر کیں جن میں انہیں جہاز میں سوار دکھایا گیا۔ تصاویر کے ساتھ تحریر تھا ’گریٹا تھنبرگ اسرائیل سے فرانس کے لیے روانہ ہو رہی ہیں۔‘

اس سے قبل اسرائیل نے کشتی میں موجود 12 رضاکاروں کو ملک بدر کرنے کے لیے تل ابیب منتقل کیا تھا۔

کارکنوں کا ایک گروپ یکم جون کو اٹلی سے ’میڈلین‘ نامی کشتی پر غزہ کے لیے خوراک اور امدادی سامان لے کر روانہ ہوا تھا، جہاں اقوام متحدہ کے مطابق پوری آبادی قحط کے سنگین خطرے سے دوچار ہے۔

اسرائیلی فورسز نے پیر کو بین الاقوامی پانیوں میں کشتی کو روکا اور اسے اشدود بندرگاہ کی طرف لے گئیں۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا ’سیلفی یاٹ‘ کے مسافر بین گوریون ایئرپورٹ پر پہنچ چکے ہیں تاکہ وہ اسرائیل سے واپس اپنے آبائی ممالک جا سکیں۔

’جو لوگ ملک بدر کیے جانے کے کاغذات پر دستخط کرنے اور اسرائیل چھوڑنے سے انکار کریں گے انہیں عدالتی حکام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔‘

کشتی کے منتظم گروپ ’فریڈم فلوٹیلا کولیشن‘ نے کہا کہ تمام 12 رضا کاروں کو’کارروائی کے مرحلے سے گزار کر اسرائیلی حکام کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر جاری بیان میں مزید کہا گیا ’ممکن ہے انہیں آج رات ہی تل ابیب سے روانگی کی اجازت مل جائے۔‘

گروپ کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ جب اسرائیلی فورسز کشتی پر سوار ہوئیں تو کارکنوں نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا رکھے تھے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔

ترکی نے اس کارروائی کو ایک ’سنگین حملہ‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی جبکہ ایران نے اسے بین الاقوامی پانیوں میں ’قزاقی کی ایک شکل‘ قرار دیا۔

مئی میں ’فریڈم فلوٹیلا‘ کی ایک اور کشتی ’کانشینس‘ کو، جو غزہ کی جانب جا رہی تھی، مالٹا کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں نقصان پہنچا تھا۔ 

کارکنوں نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ حملہ اسرائیلی ڈرون کے ذریعے کیا گیا۔ 2010 میں ترکی کی کشتی ’ماوی مرمارا‘ پر اسرائیلی کمانڈوز کے چھاپے کے دوران، جو بحری ناکہ بندی توڑنے کی ایک ایسی ہی کوشش کا حصہ تھی، 10 شہری جان سے گئے تھے۔

اتوار کو اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ یہ ناکہ بندی، جو کئی سال سے نافذ ہے، فلسطینی عسکریت پسندوں کو ہتھیار درآمد کرنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے۔

کشتی میں صحافی بھی تھے

کولیشن کی طرف سے فراہم کردہ کوآرڈینیٹس میں بتایا گیا کہ میڈلین کشتی کو غزہ کے ساحل سے تقریباً 185 کلومیٹر (115 میل) مغرب میں روکا گیا۔

ایک صدارتی اہلکار نے بتایا کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکروں نے مطالبہ کیا کہ کشتی پر سوار چھ فرانسیسی شہریوں کو ’جلد از جلد فرانس واپس آنے کی اجازت دی جائے۔‘

میڈیا رائٹس گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق ان میں سے دو صحافی ہیں: قطر میں قائم الجزیرہ کے عمر فیاض اور آن لائن اشاعت ’بلاسٹ‘ سے وابستہ یانس محمدی۔ 

گروپ نے ان کی حراست کی مذمت کرتے ہوئے ان کی ’فوری رہائی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الجزیرہ نیٹ ورک نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ’اسرائیلی کارروائی کی سختی سے مذمت کرتا ہے‘ اور اپنے رپورٹر کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔

’عدالہ‘ نامی ایک اسرائیلی این جی او نے، جو ملک کی عرب اقلیت کو قانونی معاونت فراہم کرتی ہے، کہا کہ میڈلین پر سوار رضاکاروں نے ان کی خدمات طلب کی ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کو ملک بدر کیے جانے سے پہلے کسی حراستی مرکز منتقل کیا جائے گا۔

اسرائیل پر غزہ میں خوراک اور بنیادی اشیا کی شدید قلت کو کم کرنے کے لیے مزید امداد کی اجازت دینے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

’ہمارے بچے مر رہے ہیں‘

اسرائیل نے حال ہی میں دو ماہ سے زائد عرصے تک پابندی کے بعد کچھ امدادی سامان کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی ہے اور امریکی حمایت سے قائم ہونے والے نئے ادارے ’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن‘( جی ایچ ایف) کے ساتھ کام کا آغاز کیا ہے۔

تاہم انسانی امدادی اداروں نے جی ایچ ایف پر تنقید کی ہے، جبکہ اقوام متحدہ نے اس کے طریقہ کار اور غیر جانب داری پر تحفظات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک جی ایچ ایف کے امدادی مراکز کے قریب درجنوں افراد مارے گئے۔

غزہ شہر میں پیر کو بے گھر فلسطینی خاتون ام محمد ابو ناموس نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں امید ہے ’تمام اقوام ہمارے ساتھ کھڑی ہوں گی، ہماری مدد کریں گی اور ہمیں ایک کی بجائے 10 کشتیاں ملیں گی۔‘

انہوں نے کہا ’ہم معصوم لوگ ہیں۔ ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں... ہم نہیں چاہتے کہ بھوک کی وجہ سے مزید بچے کھو بیٹھیں۔‘

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت سے اب تک کم از کم 54,880 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد سمجھتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا