طاقتور افراد ماحولیاتی تبدیلی کے لیے سنجیدہ ہوں: گریٹا کا خواب

سویڈن کی 16 سالہ طالبہ نے امریکی کانگریس سے خطاب میں کہا کہ ہم سب کو سائنس کے پیچھے متحد ہونا ہوگا۔

گریٹا تھنبرگ  رواں برس  18 اپریل  کو روم کی سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

میرا نام گریٹا تھنبرگ ہے۔ میری عمر 16 سال ہے اور میرا تعلق سویڈن سے ہے۔ میں آپ کے ساتھ امریکہ میں موجودگی پر بہت خوش ہوں۔ جو بہت سے لوگوں کے خوابوں کا ملک ہے۔

میرا ایک خواب ہے کہ حکومتیں، سیاسی جماعتیں اور بڑی کمپنیاں اپنے اختلافات بھلا کر ماحولیاتی اور حیاتیاتی تبدیلی کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مل کر کام کریں جیسے آپ ایک ہنگامی حالت کے دوران کرتے ہیں اور ایسے اقدامات اٹھائیں جن سے زمین پر موجود ہر انسان کی عزت اور اس کے حالات میں بہتری کو یقینی بنایا جائے،کیونکہ تب ہی لاکھوں سکول جانے کے قابل بچے سکول واپس جا سکیں گے۔

میرا خواب ہے کہ طاقتور لوگ جن میں میڈیا بھی شامل ہے، اس بحران کو معدومی کے خطرے کی طرح اہمیت دیں تاکہ میں واپس گھر جا کہ اپنی بہنوں اور اپنے کتے کے ساتھ کھیل سکوں۔ کیونکہ وہ مجھے یاد آتے ہیں۔

درحقیقت میرے کئی خواب ہیں لیکن یہ سال 2019 ہے۔ یہ خوابوں کا وقت اور جگہ نہیں ہے۔ یہ تاریخ کے وہ لمحات ہیں جب ہمیں بیدار ہونا ہوگا۔

ہاں ہمیں خوابوں کی ضرورت ہے، ہم خوابوں کے بغیر نہیں جی سکتے، لیکن ہر چیز کے لیے ایک وقت اور جگہ ہوتی ہے۔ایک خواب حقیقت بیان کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

لیکن میں جہاں جاتی ہوں مجھے کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ کاروباری شخصیات، منتخب نمائندے اور ہر طرح کی سیاسی سوچ والے افراد ہمیں ایسی کہانیاں سنانے میں لگے رہتے ہیں جو ہمیں بھا جاتی ہیں اور واپس سونے پر مجبور کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ چیزوں کو ٹھیک کرنے کے بارے میں ’بہت اچھی‘ کہانیاں ہیں۔ کتنا اچھا ہوگا اگر ہم سب کچھ ’حل‘ کرلیں، لیکن ہم جس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں وہ خواب دیکھنے کی صلاحیت کا نہ ہونا یا دنیا کو بہتر بنانے کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اب جاگنا ہوگا۔ وقت آچکا ہے کہ ہم حقیقت، سچائی اور سائنس کا سامنا کریں۔

لیکن سائنس ہمیشہ اُن عظیم مواقعوں، جو ہمیں اپنی مرضی کا معاشرہ بنانے کے لیے ملتے ہیں، کی بات نہیں کرتی۔ یہ انسانوں پر گزرنے والے اُن مسائل کی بات کرتی ہے جس کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔ جو اقدامات میں تاخیر کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ بدتر ہو رہے ہیں۔ ہاں ایک تبدیل شدہ دنیا بہت فوائد رکھتی ہوگی لیکن آپ کو سمجھنا ہوگا۔ یہ صرف گرین جابز، نئے کاروبار یا معاشی نمو پیدا کرنے کا موقع نہیں ہوگا۔ یہ تمام ہنگامی حالات سے بڑھ کر ہے، کسی بھی ہنگامی حالت سے۔ یہ ہر اُس بحران سے بڑا ہے جس کا انسانوں نے آج تک سامنا کیا ہے۔

ہمیں ان کی اہمیت سمجھتے ہوئے اس کا مناسب انداز میں سدباب کرنا ہوگا کیونکہ آپ کسی بحران کو سمجھے بغیر اس کو حل نہیں کر سکتے۔ لوگوں کہ یہ بتانا بند کریں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا جبکہ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ سوشل میڈیا پر فروخت یا پسند کے لیے پیش کیا جانے والا کوئی مال نہیں ہے۔

ایسے ظاہر کرنا بند کریں کہ آپ، آپ کا کاروباری آئیڈیا، آپ کی سیاسی جماعت یا کوئی منصوبہ سب کچھ حل کر دے گا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمارے پاس تمام مسائل کا حل موجود نہیں ہے۔ ہم اُس سے بہت دور ہیں، جب تک ہم کچھ اقدامات کرنا یقینی طور پر بند نہیں کر دیتے۔

زیادہ خطرناک ذرائعِ توانائی سے تھوڑے کم خطرناک ذرائعِ توانائی کو اپنا لینا ترقی نہیں ہے۔ فاضل مواد کو بیرون ملک بھیج دینا اس مواد میں کمی نہیں لا رہا۔ اکاؤنٹنگ میں جدت ہماری مدد نہیں کر پا رہی بلکہ یہ اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔

آپ میں سے کئی لوگوں نے سنا ہوگا کہ ہمارے پاس یکم جنوری 2018 سے اپنے کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج کو آدھا کرنے کے لیے صرف 12 سال باقی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں مشکل ہی ہے کہ آپ نے سنا ہوگا کہ ہمارے پاس صنعتی انقلاب سے پہلے کے درجہ حرارت کی سطح میں ایک اعشاریہ پانچ فیصد کمی کا امکان صرف 50 فیصد ہے۔ ایسا کرنے کے امکانات 50 فیصد ہیں۔

موجود دور کی بہترین سائنسی تحقیقی رپورٹوں میں یہ بات شامل نہیں کہ زمین کی منجمد سطح سے نکالی جانی والی میتھین گیس حالات کو ناقابلِ واپسی مقام پر لے جا رہی ہے یا یہ پہلے ہی فضا میں آلودگی پھیلا کر برابری یا ماحولیاتی انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔

تو 50 فیصد امکانات کا مطلب ہے کہ سکے کا دوسرا رخ دکھایا جا رہا ہے، جو کافی نہیں ہے۔ ایسا کرنا اخلاقی طور پر ناقابلِ دفاع ہے۔ کیا آپ کسی ایسے جہاز میں سوار ہوں گے جس کے بارے میں 50 فیصد امکان ہوکہ وہ گِر جائے گا؟ سیدھی بات کرتے ہیں: کیا آپ اپنے بچوں کو ایسے جہاز میں سوار ہونے دیں گے؟

اور ایک اعشاریہ پانچ درجہ کی سطح سے نیچے رہنا کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ سائنس ایسا ہی چاہتی ہے کہ موسم کو غیر مستحکم ہونے سے بچایا جائے تاکہ ہم ایسی صورتحال سے بچ سکیں جو انسانوں کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ایک درجے کے اضافے سے بھی ہم انسانی زندگی اور رہن سہن کے حوالے سے ناقابلِ قبول نقصان سے گزر رہے ہیں۔

تو ہم کہاں سے شروع کریں؟ میں مشورہ دوں گی کہ ہمیں آئی پی سی سی کی گذشتہ سال کی رپورٹ کے دوسرے باب، صفحہ 108 سے شروع کرنا ہوگا۔ جہاں کہا گیا ہے کہ ہمارے پاس درجہ حرارت کی سطح کو ایک اعشاریہ پانچ کی سطح سے کم رکھنے کا موقع 67 فیصد تک ہے۔ یکم جنوری 2018 کو ہمارے پاس سی اور ٹو یعنی خارج ہونے والی کاربن کی مقدار 420 گیگا ٹن تھی۔ یقینی طور پر آج یہ اعدادوشمار کم ہوں گے۔ ہم ہر سال 42 گیگا ٹن کاربن خارج کرتے ہیں جن میں زمینی استعمال بھی شامل ہے۔

آج کے دور میں کاربن کا جتنا اخراج ہو رہا ہے، یہ باقی رہ جانے والی سطح کو ساڑھے آٹھ سال میں پیچھے چھوڑ دے گا۔ یہ اعدادوشمار میری رائے نہیں ہیں۔ یہ کسی کے سیاسی یا ذاتی خیالات نہیں ہیں۔ یہ فی الحال سب سے بہترین موجودہ سائنس کا کہنا ہے۔ گو کہ کچھ سائنسدان ان اعدادوشمار کو بہت معتدل سمجھتے ہیں لیکن آئی پی سی سی کی وساطت سے تمام ممالک نے انہیں تسلیم کیا ہے۔

برائے مہربانی یاد رکھیں کہ یہ اعدادوشمار عالمی سطح کے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ امیر ممالک کو اس بارے میں جلد ہی اقدامات لیتے ہوئے کاربن کے صفر فیصد اخراج کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ غریب ممالک میں ہمارے ملک میں موجود انفراسٹرکچر تعمیر کرکے معیارِ زندگی بہتر بنایا جاسکے۔ جن میں سڑکیں، ہسپتال، سکول، صاف پانی اور بجلی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا بجلی سے چلنے والی گاڑی ماحول دوست ہے؟

امریکہ دنیا میں کاربن کی آلودگی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے لیکن پھر بھی یہ وہ واحد ملک ہے جو معاہدہ پیرس سے الگ ہونے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ: ’یہ امریکہ کے لیے ایک اچھی ڈیل نہیں تھی۔‘

سی او ٹو کے 420 گیگا ٹن جو یکم جنوری 2018 تک اخراج کیا جا رہا تھا، عالمی درجہ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ فیصد کی سطح تک نیچے رکھنے کا امکان رکھتا ہے جبکہ یہ اعدادوشمار مزید کم ہو کر اب 360 گیگا ٹن تک آچکے ہیں۔

یہ اعدادوشمار بہت غیر تسلی بخش ہیں لیکن لوگ جاننے کا حق رکھتے ہیں اور ہماری ایک بہت بڑی تعداد کو علم ہی نہیں کہ یہ وجود بھی رکھتے ہیں۔ حتی کہ میں جن صحافیوں سے ملی ہوں وہ بھی ان سے آگاہ نہیں ہیں۔ سیاست دانون کا تو ذکرہی کیا کروں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تمام ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے منصوبے اس تمام بحران کو حل کر سکتے ہیں۔

لیکن ہم ایک ایسے مسئلے کو کیسے حل کر سکتے ہیں جسے ہم سمجھتے ہی نہیں؟ ہم مجموعی صورت حال اور موجودہ بہترین سائنس کو کیسے بھول سکتے ہیں؟

میرا ماننا ہے کہ ایسا کرنا بہت خطرناک ہے اور اس کا پسِ منظر جتنا بھی سیاسی ہو، ہم نے اس کو سیاسی تقسیم پر مبنی سوال نہیں بننے دینا۔ موسمیاتی اور حیاتیاتی بحران سیاسی جماعتوں کی سیاست سے بالا ہے۔ ہمارے سیاسی مخالف ہمارے دشمن نہیں ہیں، ہمارے بڑے دشمن حیاتیاتی حالات ہیں اور ہم ان حالات سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔

سب کا یہ کہنا ہے کہ وہ زمین کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں تاکہ موجودہ اور مستقبل کی نسلوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ یہ ایک ناممکن کام ہے۔

امریکی اس سے پہلے بھی مشکل حالات میں قربانیاں دے چکے ہیں۔ اُن سپاہیوں کا سوچیں جو ڈی ڈے کی پہلی لہر میں اوماہا ساحل پر دوڑتے رہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کا سوچیں اور اُن چھ سو سول رائٹس رہنماؤں کا جنہوں نے سیلما سے مونٹگمری تک مارچ کرکے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ صدر جان ایف کینیڈی کا سوچیں جنہوں نے 1962 میں اعلان کیا تھا کہ ’امریکہ نے اسی دہائی میں چاند پر جانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرے گا۔ اس لیے نہیں کہ یہ آسان ہے بلکہ اس لیے کہ یہ مشکل ہے۔‘

شاید یہ ناممکن ہے۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ ان اعدادوشمار اور موجودہ سائنس کو دیکھنا، جس پر تمام اقوامِ متحد ہیں، ہم سب کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

لیکن آپ نے اپنا تمام وقت خواب دیکھنے میں نہیں گزارنا ہے یا اس کو کسی سیاسی لڑائی میں فتح کے طور پر نہیں دیکھنا ہے۔

آپ کو اپنے بچوں کا مستقبل ایک سکے کے  رخ بدلنے پر منحصر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ آپ سب کو سائنس کے پیچھے متحد ہونا ہوگا۔ آپ کو کچھ کرنا ہوگا۔ آپ کو ناممکن کو ممکن بنانا ہو گا کیونکہ ہار ماننا کبھی بھی ایک حل نہیں ہو سکتا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات