جنگیں مسائل کا حل نہیں لیکن جب جنگ آپ پر مسلط کر دی جاتی ہے تو پھر اس میں کودنے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا۔ کسی نے اچھی مثال دی کہ جب بلی جیسے معصوم جانور کو ڈنڈے ماریں تو وہ بھی بلآخر آپ پر جھپٹ پڑتی ہے۔
انڈیا نے بھی پاکستان کے ساتھ ویسا ہی کیا۔ پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد، میڈیا کے ذریعے جنگ کا ماحوال بنا کر حملہ کر دیا۔ دو تین دن تک پاکستان برداشت کا مظاہرہ کرتا رہا لیکن ایک طرف حملے اور پھر جب یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستان نے انڈیا کے پندرہ شہروں پر حملہ کر دیا ہے تو پاکستان نے نہ صرف اس کی فوری تردید کی بلکہ پاکستان فوج کے ترجمان کے یہ الفاظ آج بھی میڈیا پر گونج رہے ہیں ’کہ جب ہم حملہ کریں گے تو انڈین میڈیا کی بجائے پوری دنیا کو لگ پتہ جائے گا۔‘
اور پھر ہم نے دیکھا کہ جب پاکستان کے پاس جواب دینے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں چھوڑا گیا اور جب پاکستان نے انڈین عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا تو پھر دنیا نے واقعی دیکھا کہ جدید ترین فرانسیسی ساختہ جہاز بھی گرنے لگے۔
یہاں بطور صحافی میں جنگ کو بالکل گلوریفائی نہیں کر رہا لیکن انڈیا کو جواب دینا پاکستان کے سلامتی اور بقا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ پاکستان نے پانچ انڈین جیٹ طیارے گرانے کا دعوی کیا لیکن انڈین نے حکام اسے بھی پروپیگنڈا قرار دیا۔
پھر جب فرانس نے پاک فضائیہ کے ہاتھوں پہلے رفال طیارے گرنے کی امریکی نیوز چینل سی این این کو تصدیق کر دی تو انٹرنیشنل میڈیا پر انڈیا کی ہزیمت کا آغاز ایسے ہوا کہ دنیا بھر کے دفاعی ماہرین دنگ اور حیران دکھائی دیے کہ ناقابل تسخیر سمجھے جانے والا طیارہ رفال کیسے مار گرایا گیا۔
اب تو خیر فرانسیسی حکام دو رفال طیارے گرنے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ رفال کی شئیرز گر چکے ہیں فرانسیسی میڈیا میں انڈیا کے پائلٹس کی ناقص تربیت پر شدید تنقید ہو رہی اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ یہ رفال ٹیکنالوجی نہیں بلکہ انڈین فضائیہ کی بڑی ناکامی ہے جو اپنے پائلٹوں کو رفال کے لیے تیار نہ کروا سکے۔
اب اطلاعات یہ ہیں فرانس سے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم جلد انڈیا بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ رفال طیارے دو سے زیادہ تو نہیں گرائے گئے جو کہ پاکستان کا ابھی بھی دعوی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پوری کہانی میں انڈیا کو پہلی شرمندگی اس وقت اٹھانی پڑی جب رفال گرنے کی تصدیق فرانسیسی حکام نے کر دی۔ دوسری شرمندگی اپنے میڈیا کی وجہ سے اٹھانی پڑی جنہوں نے پہلے تو ایسا جنگی ماحول بنایا کہ جیسے چند انڈین صحافی تو میزائل کندھے پر رکھ کر پاکستان پر چڑھ دوڑیں گے، کراچی بندرگاہ، اسلام آباد اور پشاور پر انڈین قبضے کے دعوے کیے گئے۔
حد تو یہ کر دی کہ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی گرفتاری اور ملک چھوڑنے کی خبریں تک چلائیں گئیں۔ انڈین میڈیا کو جس نے بھی دیکھا اور اگر اس پر یقین کیا تو انڈیا تقریباً آدھے پاکستان پر قابض ہو چکا تھا۔
ایسے میں پاکستان کی غیر معمولی اور موثر کارروائی نے انڈین میڈیا کو پہلی دفعہ چپ لگوائی۔ اور جوابی حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب جنگ بندی کا اعلان کر کے اپنی ٹویٹ میں کشمیر سمیت تمام مسائل پر غیرجابندار ملک میں مذاکرات کا اعلان کیا تو انڈین میڈیا میں صف ماتم بچھ گیا۔
اب تو ٹرمپ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دونوں ممالک کو دھمکی دی کہ اگر جنگ بندی نہ کی تو امریکہ آپ سے تجارت ختم کر دے گا۔ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی امریکہ سے تجارت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ انڈیا اور امریکہ کی مشترکہ تجارت کا حجم تقریباً 130 ارب ڈالرز ہے۔
اس دھمکی کے بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کا سیز فائر پر آمادہ ہونے سے انڈیا میں ان کا تشخص ایک کمزور رہنما کے طور پر ابھرا ہے اور کئی انڈین تجزیہ کار اب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نریندر مودی کی سیاست کے زوال کا باقاعدہ آغاز ہے۔
اس وقت انڈین میڈیا اور سیاست دان یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ’مودی جی آپ نے تو کہا تھا پہلگام کا بدلہ لیں گے لیکن آپ نے تو بین الاقوامی دنیا میں ’طاقتور انڈیا‘ کا تشخص برباد کر دیا۔‘
ایک تجزیہ کار نے یہاں تک کہا کہ آپ نے اربوں ڈالرز کے رفال خریدے جس میں کرپشن ہوئی لیکن یہ طاقتور سمجھے جانے والے طیارے تو چوزوں کی طرح گر رہے تھے۔
میں ایک دفعہ پھر یہاں ذکر کرتا چلوں کہ جنگ نہ مسائل کا حل ہے نہ بطور صحافی ہم کسی بھی جنگ کو درست قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن ایک ملک کو وہی جنگ شروع کرنی چاہیے جو آپ مکمل کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔
اس جنگ سے تو انڈیا نے جدید کنوینشنل وار فئیر میں پاکستان کی دھاک بٹھا دی ہے اور اپنی فوجی طاقت یا طاقت کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کشمیر کے مسئلے کو عرصے بعد انٹرنیشنلائز کروا دیا، امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کا ذکر کر کے اس کے حل پر زور دینا پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اب اگر انڈیا مذاکرات سے ہچکچائے گا تو ان کا واسطہ ٹرمپ سے ہے جس کی ناراضی انڈیا کسی صورت مول نہیں لے سکتا۔
اب انڈین وزیراعظم بھلے اعلانات کرتے رہیں کہ بات صرف پاکستان کے زیرانتطام کشمیر پر ہو گی لیکن پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اب عالمی سطح پر انڈیا سفارتی طور پر وہ طاقت کھو چکا ہے جو اسے پاکستان پر حملے سے پہلے حاصل تھی۔
اس طاقت کا زیادہ حصہ اس شبہہ پر مبنی تھا کہ انڈیا ایک ابھرتی ہوئی مضبوط عالمی معیشت کے ساتھ ایک مضبوط اور طاقتور اور فوجی طاقت بھی ہے جس کا مقابلہ معاشی طور کمزور پاکستان نہیں کر سکتا۔ لیکن پاکستان نے وہ کر دکھایا جس پر دفاعی تھنک ٹینکس اور تجزیہ کار دم بخود ہیں۔
اب نریندر مودی دوبارہ سے جنگ کا ماحول بنا کر ایک دفعہ پھر پاکستان پر حملہ کرتے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ ناراض، اور اگر نہیں کرتے تو ملک کے اندر ان پر جاری تنقید بڑھتی جائے گی اور ان کا شروع ہونے والا سیاسی زوال تیزی سے ہوتا جائے گا۔
اگلا ایک ہفتہ انڈیا-پاکستان کشیدگی کے لیے اہم ہو گا، فائر بندی تو ہو چکی ہے لیکن کسی بھی وقت ٹوٹ بھی سکتی ہے، موچوں سے آگ نکلنا بند ہو چکا ہے لیکن دونوں طرف بندوق تانے فوجی ایک دوسرے کو ابھی بھی گھور رہے ہیں، مورچے خالی نہیں ہوئے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔