پاکستان - انڈیا جنگ کیسے ختم ہوئی، کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک اور خونی جھڑپ تو جلد رک گئی لیکن یہ چار دن کی لڑائی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

پاکستانی عوام 10 مئی، 2025 کو ملتان میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کے بعد جشن مناتے ہوئے ٹینک کے اوپر کھڑے فتح کے نشانات دکھا رہے ہیں (شاہد سعید مرزا / اے ایف پی)

پاکستان اور انڈیا کے درمیان خونریز جھڑپیں بلآخر سنیچر کی شام پانچ بجے امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی وجہ سے رک گئیں۔ لیکن کئی سوال جیسے کہ یہ کہ تازہ جنگ کیسے ختم ہوئی، دونوں ممالک کو کتنی مہنگی پڑی اور جانی نقصان کتنا ہوا اب بھی جواب طلب ہیں۔

جنوبی ایشیا کے دو اہم اور جوہری صلاحیت کے حامل ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان چھ اور سات مئی کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی 10 مئی کی صبح تک عروج پر پہنچ گئی تھی لیکن اس دوران بھی دونوں ممالک کو سیز فائر پر مائل کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں اور پھر 10 مئی ہی کی سہ پہر سیز فائر پر اتفاق کر لیا گیا۔

تناؤ کا آغاز تو 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 26 افراد کی اموات کے بعد ہوا لیکن شدت چھ اور سات مئی کے درمیانی شب انڈیا کی طرف سے ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان پر حملوں کے بعد ہوا۔

لگ بھگ 90 گھنٹوں تک جاری رہنے والی کشیدگی کے دوران جھڑپوں اور حملوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور 10 مئی کی صبح جب پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص کے تحت انڈیا میں مختلف تنصیبات کو نشانہ بنایا تو باقاعدہ جنگ کے خطرات منڈلانے لگے۔

اگرچہ پاکستان کے قریبی دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی کشیدگی میں کمی کی کوششوں میں حصہ لیا لیکن کلیدی کردار امریکہ کا رہا۔

یہاں تک فائر بندی پر اتفاق رائے کا اعلان بھی امریکی وزارت خارجہ سے 10 مئی کی شام جاری ایک اعلامیے میں کیا گیا جس امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ’گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران، نائب (امریکی) صدر وینس اور میں نے سینیئر انڈین اور پاکستانی حکام بشمول وزیراعظم نریندر مودی اور شہباز شریف، وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور عاصم ملک کے ساتھ بات چیت کی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں نے فوری فائر بندی اور ایک غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘

بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران امریکی وزیر خارجہ کا اہم رابطہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے تھا جس سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا مارکو روبیو نے آرمی چیف سے بات میں ’فریقین پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کے طریقے تلاش کریں۔‘

انڈین، پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا پر خبروں کے مطابق اس انتہائی کشیدگی کے دوران امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان کے آرمی چیف سے ٹیلی فونک رابطہ ’ٹرننگ پوائنٹ‘ یعنی وہ موقع تھا جس کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی۔

لیکن اس تمام صورت حال میں یہ واضح نہیں کہ امریکہ نے ثالثی کس کے کہنے پر کی۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے تو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ پاکستان نایسی کوئی درخواست نہیں کی تھی تو پھر مبصرین کے خیال میں یا تو امریکہ خود خطرات کو بھانپتے ہوئے متحرک ہوا یا پھر انڈیا کے کہنے پر اس نے مداخلت کی۔ انڈیا نے اس بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

جانی نقصانات

انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھائی نے اتوار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپریشن سندور میں انڈیا میں پاکستان میں ’دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں‘ پر حملوں میں 100 افراد کو مارا جن میں ان کے بقول کچھ ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے۔ اس بابت انہوں نے یوسف اظہر، عبدالملک رؤف اور مدثر احمد جیسے افراد نے نام لیے۔ لیکن پہلے دو دن کے حملوں میں پاکستان کی طرف سے 33 اموات کی تصدیق کی گئی جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔

پاکستانی فوج نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب انڈیا کے حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 40 شہریوں کی جان گئی جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل ہیں۔

جبکہ پاکستانی فوج کے چھ اور فضائیہ کے 5 اہلکاروں سمیت 11 اموات ہوئیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ 10 خواتین اور 27 بچوں سمیت 121 عام شہر جبکہ افواج کے 78 اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

بیان میں کہا گیا کہ انڈیا کی ’مسلح افواج نے بلا اشتعال اور قابل مذمت وحشیانہ حملے شروع کیے جن میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں سمیت معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘

انڈیا نے پاکستان کے تین اہم فضائی اڈوں جن میں راولپنڈی کی نور خان ایئر بیس، چکوال میں مرید ایئر بیس اور شورکوٹ میں قائم پی اے ایف بیس رفیقی کو بھی نشانہ بنایا تھا۔

اس کے علاوہ سکھر، چونیاں، پسرور اور سیالکوٹ ایوی ایشن بیس پر ریڈار کی سائٹس کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کا جواب

پاکستانی فوج کے ترجمان لفٹینیٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اتوار کی شب ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پاکستان خلاف استعمال ہونے والے انڈیا کے 26 اہم فوجی اڈوں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان فوج کے ترجمان کے مطابق دو مقامات پر انڈیا کے ایس 400 بیٹری نظام کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا جبکہ براہموس میزائل کے بیاس اور نگروٹا میں موجود کے ذخائر کو بھی تباہ کیا گیا۔

پاکستان کی طرف سے انڈین حملوں میں اموات سے حتمی اعداد و شمار تو جاری نہیں کیے گئے تاہم کہا گیا کہ اس کے درجنوں فوجی مارے گئے۔

پاکستان فوج کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ انڈیا کی طرف سے بھیجے گئے تمام 85 ڈرونز کو مار گرایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی ثالثی کی تاریخ

پاکستان میں دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی میں کردار ادا کیا بلکہ ان کے بقول ’1987 سے گذشتہ 38 سالوں میں یہ آٹھواں بحران ہے جس میں کشیدگی کو کم کرنے میں امریکہ نے کردار ادا کیا۔‘

سید محمد علی نے پاکستانی فضائیہ کے ایک سینیئر افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 10 مئی کو پاکستان کے حملوں سے انڈیا کی فضائی قوت اور ایئر ڈیفنس نظام کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے ان کے بقول انڈیا نے امریکہ کو ثالثی کر کے سیز فائر کرانے کا کہا۔

’انڈیا مذاکرات پر آمادہ کیوں ہوا، کیوں کہ اسے پتہ تھا کہ پاکستان کی فضائی نے جتنا نقصان اسے پہنچایا ہے ۔۔۔ انڈیا کشیدگی کو مذید بڑھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘ ہفتے کی سہ پہر انڈیا کی ایک فوجی ترجمان نے پریس کانفرنس کے دوران واضح کر دیا تھا کہ اس کے بعد اب انڈیا کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔ 

سکیورٹی امور سے متعلق امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور فرانس کی معتبر یونیورسٹی سائنس پی او میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اعزاز حسین کہتے ہیں کہ بلاشبہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی کم کرانے میں امریکہ کا کردار ہے لیکن ان کے بقول جس شدت سے پاکستانی افواج نے انڈیا کے خلاف جوابی کارروائی کی اس کی وجہ سے بھی انڈیا سیز فائر پر جلد آمادہ ہوا۔

’اگر آپ غیر جانبدار طور پر بھی دیکھیں تو انڈیا کے رفال (لڑاکا طیاروں) کو تباہ کرنے کی خبروں کو انٹرنیشنل میڈیا پر بھی کوریج ملی جسے سے انڈیا کو پہنچے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘

پاکستان کا کہنا ہے کہ فضائی لڑائی میں انڈیا کے چھ طیارے بشمول تین رفال جہازوں کو مار گرایا گیا۔ انڈیا نے رفال طیارے گرائے جانے اور ان کی تعداد سے متعلق تصدیق تو نہیں کہ البتہ اس متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب میں انڈین ایئر فورس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’نقصانات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔‘

انڈیا بھی پاکستان کے جنگ طیاروں کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن پاکستان اسے یکسر مسترد کر چکا ہے۔

محض ہتھیاروں کی لڑائی نہیں تھی

پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑائی صرف ہتھیاروں کے استعمال تک محدود نہیں تھی بلکہ اس دوران معلومات کے پھیلاؤ (انفارمیشن وار فیئر)، سوشل میڈیا کے ذریعے خبروں اور تبصروں کی جنگ کے علاوہ سائبر حملے بھی اس لڑائی کا حصہ تھے۔

لڑائی کے دوران پاکستان کے سکیورٹی حکام نے 10 مئی کو بتایا کہ سائبر حملے میں بیشتر انڈین ویب سائٹس کو ہیک کر لیا گیا جن میں ’انڈین آسام رائفل، ڈپارٹمنٹ آف اٹامک انرجی پورٹل اور انڈین ڈیفنس پروڈکشن کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

’انڈین ڈیفنس پروڈکشن ویب سائٹ کا حساس ڈیٹا ڈارک ویب پر فار سیل کر دیا گیا۔‘

دوسری جانب پاکستان کی وزارت خزانہ نے گذشتہ جمعہ کو کہا تھا کہ اس کا ایکس اکاؤنٹ ہیک کر لیا گیا ہے۔ ہیک شدہ اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ شائع کی گئی تھی جس میں انڈیا سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران بین الاقوامی شراکت داروں سے مزید قرضوں کی اپیل کی گئی تھی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا یہ بھی انڈیا کا کام تھا یا نہیں۔

اس لڑائی کو ڈرون کی جنگ بھی قرار دیا گیا۔ ماہرین کے خیال میں ’ٹِٹ فار ٹائٹ سٹرائیکس‘ یعنی ایک طرف سے حملوں پر فوری جوابی حملوں سے کشمیر کا تنازع ایک مرتبہ پھر اجاگر ہوا۔

گذشتہ پانچ دہائیوں میں دنوں ممالک کے درمیان ہونے والی لڑائی یا جھڑپیں کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول، ورکنگ باؤنڈی یا سرحدی علاقوں تک محدود تھیں لیکن اس مرتبہ انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے کی غیرمعمولی طور پر دور تک اہداف کو نشانہ بنایا۔

جنوبی ایشیا کے ماہر اور شکاگو یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر پال سٹین لینڈ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ چار دنوں کی لڑائی سے پتہ چلتا ہے کہ ’انڈیا اب سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان میں براہ راست اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ پاکستان اپنی جوابی کارروائی مزید بڑھانے پر آمادہ نظر آتا ہے۔‘

امریکی صدر ٹرمپ نے اتوار کو کہا کہ وہ کشمیر کے تنازعے کے حوالے سے ’حل‘ فراہم کرنے کے لیے کام کریں گے۔ پاکستان کی قیادت نے تو جنگ بندی میں سہولت کاری پر امریکہ اور صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا تاہم انڈیا کا اس پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹیڈیز میں ریسرچ فیلو اسد اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فائر بندی کے بعد اب دونوں ممالک کے درمیان تصفیہ طلب معاملات کو آگے بڑھانے پر بھی بات چیت ہونی چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں بیک چینلز اور امریکہ نے کشیدگی میں کمی کردار ادا کیا لیکن ’اہم بات یہ ہے کہ ایسا کس وقت کیا گیا۔ میرے میں یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کا پلڑا بھاری تھا۔

’سیز فائر تو ہوگئی لیکن تنازع کی بنیادی وجوہات پر بات کب ہو گی یہ اہم ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک کے پاس ایک موقع ہے کہ دنیا اگر امن کی طرف بڑھنا چاہتی ہے تو اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کشمیر اور پانی جیسے مسائل کو کیسے حل کیا جاتا ہے۔‘

لڑائی پر اربوں ڈالر کا خرچ

چار دن کی لڑائی میں دونوں ممالک کو معاشی طور پر کتنی قیمت ادا کرنا پڑی اس متعلق حتمی سرکاری اعداد و شمار تو دستیاب نہیں لیکن دونوں ملکوں میں ہونے والے تبصروں اور اندازوں کے مطابق یہ قیمت کئی سو ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے 9 مئی کو کہا تھا کہ گذشتہ جمعے کو دوسرے مسلسل روز سٹاکس کمی آئی جس سے مارکیٹ ویلیو میں تقریباً 83 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان کے سٹاک ایکسچینج میں بھی لڑائی کے دوران قابل ذکر کمی آئی۔

انڈیا کے مطابق اس وقت تک حتمی طور پر لڑائی پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ تو نہیں لگایا گیا لیکن کہا گیا کہ کارگل کی لڑائی کے دوران انڈیا کا ہر روز کا خرچ 14.6 ارب روپے تھا جبکہ پاکستان کا یومیہ خرچ 3.7 ارب روپے تھا جو اب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔

معاشی امور کے ماہر پاکستانی تجزیہ کار فرخ سلیم نے پیر کو اپنی ایک تحریر میں کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری تنازع سے پہلے ہی دونوں ممالک کافی معاشی بوجھ برداشت کر چکے ہیں۔

فرخ سلیم کے مطابق لڑائی کے بنیادی اخراجات فضائی حملے، ڈرون کی وسیع تعیناتی اور جنگی تیاری کی بلند سطح پر اٹھتے ہیں۔

جنگ میں ناصرف انتہائی مہنگے جنگی جہاز، ڈرون اور میزائل استعمال کیے گئے بلکہ افواج کو ہائی الرٹ پر رکھنے پر بھی کثیر اخراجات اٹھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان