اگر آپ کسی پاکستانی جامعہ میں پڑھتے یا پڑھاتے ہیں تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہاں بعض اوقات یونیورسٹی کے لیٹر ہیڈ پر ایک سادہ سا خط حاصل کرنا بھی ایک مشکل اور تھکا دینے والا مرحلہ بن جاتا ہے۔
ایک معمولی خط حاصل کرنے کے لیے کبھی ہفتوں تو کبھی کئی مہینوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے وہ خط درکار ہوتا ہے وہ تاخیر کے باعث ممکن ہی نہیں رہتا۔ دوسری طرف دنیا کے کئی ممالک میں ایسے کاموں کو بہت آسان بنا دیا گیا ہے۔
میری چینی جامعہ میں لیٹر ہیڈ جامعہ کی سپر مارکیٹ میں بآسانی خریدے جا سکتے تھے۔ ہم خود ہی ان پر اپنے خطوط کا متن لکھ کر متعلقہ افسر سے دستخط کروا لیتے تھے۔
اس سے قبل مجھے پاکستان میں ایسے کسی کاغذ کی درخواست جمع کروانے کا سوچ کر ہی تھکن محسوس ہونے لگتی تھی۔ مجھے درجنوں چکر لگانے پڑتے تھے، گھنٹوں کلرک کا انتظار کرنا پڑتا تھا پھر کہیں جا کر میرا مطلوبہ کاغذ ملتا تھا۔
میں نے اپنی کلاس میں ٹاپ کیا تھا۔ مجھے میرا پوزیشن سرٹیفکیٹ ڈگری ختم ہونے کے دو سال بعد ملا تھا، وجہ وہی کلرک کی مرضی۔ وہ اپنے دوسرے کام چھوڑ کر یہ کام کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ میں نے تنگ آ کر وائس چانسلر کو ای میل لکھی پھر مجھے میرا سرٹیفکیٹ ملا تھا۔
دوسری طرف چین سمیت جاپان اور کوریا میں طالب علم یونیورسٹیوں میں نصب خود کار مشینوں کے ذریعے اپنے بہت سے سرٹیفکیٹ خود ہی پرنٹ کر سکتے ہیں۔ ان مشینوں سے نہ صرف جامعات نے اپنے اوپر کام کا بوجھ کم کیا ہے بلکہ طالب علموں کو بہت سے غیر ضروری مسائل کا شکار ہونے سے بھی بچایا ہے۔
بہت سے دیگر ممالک کی جامعات بھی اپنے طالب علموں کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر یہ سہولت فراہم کرتی ہیں۔
تعلیمی نظاموں میں اس طرح کی خودکاری ظاہر کرتی ہے کہ وہ نظام اپنے طالب علموں پر بھروسہ کرتے ہیں۔
وہ اپنے طالب علم کے وقت، توانائی اور وسائل کی قدر کرتے ہیں۔ وہ اسے فضول کے معاملات میں الجھانے کی بجائے اس کی زندگی آسان بناتے ہیں تاکہ وہ اپنی توانائی اپنے اصل کام پر صرف کر سکے۔
دوسری طرف ہم اپنے طالب علم کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسے ہر مرحلے پر تھکاتے ہیں، اسے ایک کاغذ کے لیے دس صفحوں پر مشتمل درخواست لکھنے کا کہتے ہیں، کئی دفاتر کے چکر لگواتے ہیں، آج نہیں کل آؤ کہہ کر اس کا وقت ضائع کرتے ہیں اور پھر کبھی موڈ بنے تو اس کا کام کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے سست اور بوسیدہ نظام بعض دفعہ طالب علموں کی زندگی تک متاثر کر دیتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کا ایک مشہور کیس ہے، 2017 میں جامعہ کی ایک سابقہ طالبہ نے 17 سال کی قانونی جنگ کے بعد یونیورسٹی کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ جیتا تھا۔
یونیورسٹی کے ایک کلرک کی غلطی کی وجہ سے انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دے کر فیل کر دیا گیا تھا، جب وہ اپنے والد کے ساتھ وضاحت کے لیے کلرک کے پاس گئیں تو اس نے ان کے والد سے کہا: ’آپ کو کیا پتا کہ آپ کی بیٹی نے پرچہ دیا بھی تھا یا وہ کہیں اور تھی۔‘
اس جملے کو سن کر وہ بےحد شرمندہ ہوئیں۔
انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں محسوس ہوا کہ ان کی والدہ انہیں شک بھری نظروں سے دیکھنے لگی تھیں۔
کلرک کا جملہ یونیورسٹی میں بھی مشہور ہوا۔ ان کے ساتھی طالب علم ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے جس سے ان کی ذہنی صحت اس حد تک خراب ہوئی کہ وہ خود سوزی کا سوچنے لگیں۔
ان کے گھر والوں نے جلد ہی ان کی شادی کر دی۔ انہوں نے جامعہ کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ درج کیا جس کا فیصلہ 17 سال بعد ان کے حق میں آیا۔
ایسے ہزاروں واقعات ہیں۔ کچھ سامنے آ جاتے ہیں اور کچھ کسی کو بھی پتہ بھی نہیں چلتے۔
دنیا میں سب سے قیمتی چیز وقت ہے, ہمیں نہ صرف اپنے وقت کی قدر کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کے وقت کی بھی پروا رکھنی چاہیے۔ نظام انسانوں سے بنتے ہیں، اور وہی انسان انہیں چلاتے ہیں۔
اگر انسانی رویہ بہتر ہو، دوسروں کا احساس ہو، اور ایک دوسرے کی قدر ہو تو ہم اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں۔
دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں نے یہ سیکھ لیا ہے، وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل وقت پر حل کرکے بڑے بحرانوں کو پیدا ہونے ہی نہیں دیتے، ہمیں بھی ان سے یہ سیکھنا چاہیے۔
اب یہ چھوٹا سا حل خودکاری لانا ہو یا رویہ بہتر کرنا ہو یا محض کسی کو مکمل توجہ دینا ہو۔ ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہم اپنے نظام کو دوسروں کے لیے زحمت کی بجائے رحمت بنا سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنا بہتر مستقبل چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کے نظام کو بتدریج بہتر کرنا ہوگا تاکہ وہ طالب علموں کو آسانی کے ساتھ ساتھ عزت اور اعتماد بھی دے سکیں۔ اسی طرح ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے لوگوں کی زندگیاں آسان بنا سکیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔