پاکستان میں موجود پہاڑی سلسلے دنیا کے اہم پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہیں۔ ہم دنیا بھر کے سیاحوں کو یہاں آنے کے لیے راغب کرسکتے ہیں۔ پر افسوس ایسا ہو نہیں ہوسکا۔
ایک تو سیاسی افراتفری، اوپر سے حکومتی بدانتظامی اور سہولیات کا فقدان، یہاں سیاحوں کو اس طرح نہیں کھینچ سکا جیسے سوئٹزرلینڈ یا دیگر پوش یورپی پہاڑی علاقوں میں سیاح جاتے ہیں۔
ہمارے شمالی علاقہ جات اور سوئز ایلپس خوبصورتی میں ایک برابر ہیں، لیکن وہاں سہولیات بہترین ہیں اور یہاں پر سہولیات کا فقدان ہے، حتیٰ کہ سب سے بنیادی ضرورت انٹرنیٹ بھی ہر جگہ موجود نہیں ہے۔
ان جگہوں پر جا کر آپ کا رابطہ دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ سوچیں کوئی حادثہ ہوجائے تو کیا ہوگا۔ نہ آپ فون ملا پائیں گے، نہ انٹرنیٹ کے ذریعے سے میسج بھیج پائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں پر میزبانی کرنے والے لوگ بہت خوش اخلاق ہیں۔ اپنے مہمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، ان کی تفریح کو یادگار بنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن سہولیات کا فقدان لوگوں کی تفریح کو اکثر بدمزہ کر جاتا ہے۔
پیٹرول پمپ دور دور ہیں، اے ٹی ایم زیادہ نہیں بنے ہوئے، راستے میں کوئی ڈسپنسری یا ہسپتال نظر نہیں آتے، کوئی ریسکو یا ریلیف سروس کے سینٹر نہیں نظر آتے۔ بس ایک طویل روڈ ہے، ایک طرف پہاڑ ہیں دوسری طرف دریا ہے۔ جب کوئی شہر آتا ہے تو سیاح ضروری چیزیں حاصل کر پاتے ہیں۔
ناران، کاغان میں سہولیات اچھی ہیں لیکن اس کے اطراف میں جتنی جھیلیں اور پہاڑوں کے ٹاپ پوائنٹس ہیں، وہاں سہولیات کا فقدان ہے۔ طویل راستوں پر کچھ نہیں، نہ کوئی تعمیرات، نہ کوئی سرائے، نہ ہی موبائل انٹرنیٹ چل رہے ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنا طویل اور کھٹن راستہ ہے اور سہولیات کا فقدان ہے تو بھی پاکستان کی ایک بڑی آبادی پہاڑی علاقوں کا رخ کیوں کرتی ہے؟ ایک تو وہ لوگ ہیں جنہیں ایڈونچر اور پہاڑ پسند ہیں اور وہ کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں جبکہ باقی وہ ہیں جو صرف اپنے اہل خانہ کو پہاڑوں تک ہی لے جانا افورڈ کرسکتے ہیں۔
ان مہینوں میں میدانی علاقوں کا درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے اور بچوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ وہ سیر پر جانے کی ضد کرتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی لندن، دبئی، تھائی لینڈ اور مالدیپ جانا افورڈ نہیں کر سکتے، اس لیے وہ مری، سوات، ناران، کاغان، کالام اور گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ سیاحوں کا بوجھ مری پر ہوتا ہے۔ یہاں پر قیام و طعام کی سہولیات اچھی ہیں، لیکن مہنگا ہونے کی وجہ سے لوگ اب زیادہ سفر کرکے خیبرپختونخوا کے تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔
بات مری کی ہو یا شمالی علاقہ جات کی، یہاں پر امرا کے لیے بھی ریزوٹ بنے ہیں اور عوام کے لیے قیام و طعام کی سہولیات بھی ہیں۔
ان حیسن وادیوں میں بہت سے سرکاری اداروں کے ریسٹ ہاؤس، گلف کلبز اور لاجز بھی ہیں، وہ سستے بھی ہیں، حسین بھی ہیں اور سہولیات بھی بہت اچھی ہیں لیکن یہاں بکنگ کے لیے سرکاری ملازم ہونا ضروری ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد یہاں جانے سے محروم ہے۔
عوام زیادہ تر پرائیویٹ ہوٹلز، موٹلز، سرائے اور ریزوٹ میں قیام کرتے ہیں، جہاں پرائیویٹ سیکٹر اپنی مرضی سے پیسے وصول کرتا ہے۔
لوگ سارا سال پیسے جمع کرکے ان تفریحی مقامات پر جاتے ہیں۔ کوئی کوچ کروا لیتا ہے، کوئی اپنی سواری پر پکنک کی صورت میں چل نکلتے ہیں۔ یہ کچھ دن ہوتے ہیں جب یہ تفریح، موج مستی ان کو اصل زندگی کی مشکلات سے کچھ دور کر دیتی ہے، لیکن ان تفریحی مقامات پر نئی مشکلات ان کی منتظر ہوتی ہیں۔
بہت سے سیاح جہاں یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ باتھ روم کے باہر ٹکٹ لگا ہوتا ہے۔ آپ 50 روپے دیں، تب ہی رفع حاجت کے لیے جاسکتے ہیں تو کچھ یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ پانی کی چھوٹی بوتل 50 کے بجائے 200 کی کیوں مل رہی ہے۔
اتنی طویل سڑک ہے جو تمام پہاڑی علاقوں کو جوڑتی ہے لیکن اگر گاڑی خراب ہو جائے تو کوئی مدد نہیں۔ علاقہ مکین مدد کردیتے ہیں لیکن اگر سڑک پر گاڑی خراب ہو اور آبادی دور ہو تو گھنٹوں کی خواری ہوجاتی ہے۔
جب پاکستان کی جنوبی مشرقی آبادی سے لاکھوں سیاح شمالی علاقہ جات آتے ہیں تو یہاں ریسکیو اور ریلیف کا انتظام کیوں نہیں؟ کوئی ہیلپ لائن کیوں نہیں؟ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ کم پیسوں میں تفریح کرلیں تو وہ اپنے اہل خانہ کو پہاڑوں پر لے جاتے ہیں، آگے جہاں قیام ہوتا ہے، وہاں پتہ چلتا ہے کہ نہ گیس ہے، نہ بجلی، نہ پانی اور نہ ہی انٹرنیٹ۔ ایسے میں انسان تفریح کیا خاک کرے۔
تعمیرات دریاؤں پر ہوتی رہیں، جھیلوں کے اوپر ہوٹل بن گئے لیکن حکومتیں خاموش ہیں۔ پر جب سیلاب آتے ہیں تو سب کچھ بہا کر ساتھ لے جاتے ہیں۔
ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ اب مون سون شروع ہوا ہے تو شدت سے بارشیں ہو رہی ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ ہماری حکومتیں کوئی انتظام کیوں نہیں کرتیں؟ ہر سال سیلاب تباہی مچاتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ذخیرے ہی نہیں۔
اب جب صورت حال ٹھیک نہیں تو سیاحوں کو پہلے کیوں نہیں آگاہ کیا گیا کہ اس طرف مت جائیں۔ موسم کا حال نجی چینلز اور سوشل میڈیا پر کیوں نشر نہیں کیا جاتا۔ اب جو کچھ سوات میں ہوا، اس سے پہلے 2022 میں بھی ایسا سانحہ ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی مصیبت میں پھنس جائے تو وہ معاملہ بس اللہ توکل ہوتا ہے۔
ہمارے امدادی اداروں کے پاس نہ ہی ہیلی کاپٹر ہیں، نہ ہی بوٹس ہیں۔ نہ ہی دریا کنارے تیراک موجود ہوتے ہیں۔ پانچ دریاؤں والے ملک میں ایسے تیراک نہیں، جو ایسی صورت حال میں لوگوں کو بچا سکیں، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ہماری نئی نسل تو تیراکی سے واقف بھی نہیں، ان کے سکولز چند کمروں پر مشتمل ہوتے ہیں، وہ کھلے میدان تو خواب ہوئے کہ وہ کچھ کھیل یا ورزش کی طرف بھی آ جاتے۔ تیز بارش اور سیلابی ریلے کی وجہ سے سیاح پانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔
اگر کوئی اور ملک ہوتا تو ایسے سانحے کے بعد یومِ سوگ ہوتا لیکن پاکستان میں دو تین دن بس سوشل میڈیا کی حد تک بات ہوتی ہے، پھر سب بھول جاتے ہیں۔ ایک خاندان کے سینکڑوں لوگ ایک ساتھ لقمہ اجل بنے اور اس کے علاوہ دیگر سیاح بھی اس ریلے میں پھنسے، یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا رنج کیا جائے کم ہے۔
اب جب چند دن بعد اس پرانے نظام میں ایک نیا سانحہ ہوگا تو سب کو پھر یاد آجاتا ہے کہ ہمارے پاس تو سیاحوں کی مدد کے لیے کوئی ہیلپ لائن، کوئی ایپ، کوئی ریسکیو ریلیف سروس ہی موجود نہیں۔
سیاح کیا کریں؟ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے سیر و تفریح چھوڑ دیں یا ایسے ہی سانحات میں ترنوالہ بن جائیں؟ جب تک سیاحوں کی حفاظت کے لیےکوئی میکنزم نہیں بنتا، سیاحوں سے گزارش ہے کہ سفر موسم کا حال دیکھ کر پلان کریں، گوگل، محکمہ موسمیات اور موسم بتانے والی ایپ پر پورے مہینے کا احوال درج ہوتا ہے، تیز بارش اور سیلاب کی صورت میں سفر سے گریز کریں۔ پہاڑی علاقوں میں گاڑی آہستہ چلائیں اور جہاں انٹرنیٹ دستیاب ہو اپنے گھر والوں سے رابطے میں رہیں۔
اگر تیراکی نہیں آتی تو پانی سے دور رہیں۔ کسی سیلفی یا ٹک ٹاک کی وجہ سے اپنی جان مشکل میں نہ ڈالیں۔ یاد رکھیں اگر آپ کسی مصیبت میں پھنس گئے تو ویڈیو بنانے والے تو بہت ہوں گے، لیکن مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ پاکستانی سیاحوں کی کوئی سنوائی نہیں ہونی۔