جے شنکر کا دورہ چین: کیا تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟

کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی طرف پیش قدمی ہے یا محض معمول کا سفارتی عمل؟

15 جولائی 2025 کی اس تصویر میں انڈین وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر چین کے شہر تیانجن میں ایس سی او کے سمٹ کے دوران چینی صدر شی جن پنگ سے ہاتھ ملا رہے ہیں (جے شنکر ایکس) 

پانچ برسوں کے بعد گذشتہ ہفتے انڈین وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے چین کا دورہ کیا، جو کئی دارالحکومتوں میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی طرف پیش قدمی ہے یا محض معمول کا سفارتی عمل؟

کچھ مبصرین کے خیال میں دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری برکس اور ایس سی او کو طاقتور بنانے کی مؤجب ہو سکتی ہے۔

2020 کی سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی رہی لیکن حالیہ مہینوں میں اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

انڈیا کے مختلف وزرا نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے مختلف اجلاسوں کے لیے چین کا دورہ کیا جبکہ اب جے شنکر نے بھی چینی صدر شی جی پن سے ملاقات کی ہے۔

انڈیا میں کئی حلقوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی حالیہ جنگ کے دوران چین پر یہ الزام لگایا کہ اس نے پاکستان کو ہتھیار فراہم کیے یا مختلف طریقوں سے انڈیا کے خلاف اس کی مدد کی۔

ان الزامات کے بعد اس ملاقات کو چین کی طرف انڈیا کے بدلتے ہوئے رویے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

لیکن اس دورے کو صرف پاکستان کے تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں ہو گا۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی ٹیرف چین اور انڈیا کو بہت سارے اختلافات رکھنے کے باوجود قریب آنے پر مجبور کر رہا ہے۔

واشنگٹن نے جہاں بیجنگ پر سخت ٹیرف لگایا، وہیں اس نے انڈیا کی ناک میں بھی دم کیا ہوا ہے اور دہلی نے اس حوالے سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو امریکہ کے خلاف جوابی ڈیوٹیز لگانے کی تجویز دی ہے۔

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ جون میں انڈین وزیراعظم مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دورہ امریکہ کی دعوت کو معذرت کے ساتھ ٹھکرایا تھا، جب کہ انڈیا ٹرمپ کے اس اعلان پر بھی چراغ پا تھا، جو انہوں نے پاک انڈیا جنگ کے بعد جنگ بندی کے حوالے سے کیا تھا۔

انڈیا کو بہت سی چینی پالیسیوں پر اختلاف ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر دہلی پریشانی کا شکار ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے بعد 12 برسوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم سو ارب ڈالرز سے بڑھ کر 200 ارب ڈالرز ہو گیا ہے۔

چین کی نایاب معدنیات اور کھاد کی برآمدی پالیسی پر بھی انڈیا کو تحفظات ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے لیے چینی حمایت بھی انڈیا کے لیے درد سر ہے۔ دہلی بیجنگ کے ڈھاکہ سے بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھی شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔

ان سارے عوامل کے پیش نظر اس دورے کا یہ مطلب نکالا جا رہا ہے کہ انڈیا چین سے تعلقات بہتر کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ تاہم کچھ مبصرین کے خیال میں کوشش صرف انڈیا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ چین نے بھی حال ہی میں تبت میں انڈین یاتریوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں سہولیات فراہم کی ہیں۔

اس کے علاوہ اس بات کا عندیہ بھی دیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں جلد شروع ہو سکتی ہیں۔

انڈیا اور چین کے درمیان ایک اور وجہ نزاع تبت کا معاملہ ہے۔ انڈیا کھل کر دلائی لاما کی حمایت کرتا ہے اور اس نے دھرم شالہ میں انہیں اپنے ہاں عبوری حکومت قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔

گذشتہ ہفتے دلائی لاما کی 90ویں سالگرہ کی تقریب میں انڈیا کے کئی وزرا نے شرکت کی، جس پر چین نے برہمی کا اظہار کیا۔ 

چین سمجھتا ہے کہ دلائی لاما کے جانشین کے لیے اس کی منظوری درکار ہو گی، جب کہ دلائی لاما اسے مسترد کرتے ہیں۔

ایک چینی سفارت کار نے کہا کہ تبت کا معاملہ چین اور انڈیا کے تعلقات میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔

انڈیا چین کے تعلقات کی راہ میں اور بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ انڈیا، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا ایک ایسے عسکری اتحاد کا حصہ ہیں، جس کا بظاہر مقصد چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔

انڈیا اور چین کے درمیان 3000 کلومیٹر سے زیادہ کی سرحد ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات بھی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین اور پاکستان کے گہرے دوستانہ تعلقات، عسکری معاونت اور نایاب معدنیات پر چین کی اجارہ داری بھی ایسے اہم سوالات ہیں جن کو نظر انداز کر کے وہ چین سے تعلقات بہتر نہیں کر سکتا۔

تاہم دونوں ممالک امریکہ اور یورپ میں بڑھتی ہوئی معاشی قوم پرستی اور پروٹیکشنزم کے رجحان پر پریشان ہیں، جس سے انہیں شدید معاشی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دونوں ممالک آزاد تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔

دونوں ممالک کی یہ خواہش ہے کہ ان کی معاشی شرح نمو تیزی سے بڑھے۔ کچھ انڈین حلقوں کی تو یہ خواہش تھی کہ انڈیا کی جی ڈی پی نو فیصد کی شرح سے ایک طویل عرصے تک بڑھتا رہے۔ لیکن اگر وہ چین سے تعلقات بہتر نہیں کرتا تو نایاب معدنیات اور کھاد کے حصول میں اس کو بہت دشواری ہو سکتی ہے۔

ان معدنیات کے بغیر جدید ٹیکنالوجی کا تصور بھی بیکار ہے۔ لیپ ٹاپ سے لے کر موبائل فون اور موبائل فون سے الیکٹرک کار اور دفاعی سامان، ہر شے کے لیے ان کا حصول بہت ضروری ہے۔

جہاں انڈیا میں کچھ حلقوں کی یہ خواہش ہے کہ چین کی بڑی مارکیٹ اور اس کی نایاب معدنیات سے فائدہ اٹھایا جائے، وہیں انڈیا میں کئی حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا مستقبل امریکی اور مغربی کیمپ سے اتحاد میں مضمر ہے۔

کئی مغربی کمپنیوں نے انڈیا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر کے اس کو ویکسین، سوفٹ ویئر اور دوسرے شعبوں میں رہنما بنایا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر انڈیا فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ اور دلائی لاما کے مسئلے پر چین کی حساسیت کو سمجھے اور دوسری طرف اگر بیجنگ کھاد، معدنیات اور سرحدی تنازعات پر لچک دکھائے تو دونوں ممالک میں قربت ممکن ہے۔

تاہم دونوں ممالک کو دو طرفہ تنازعات کو ایس سی او پر لانے سے اجتناب کرنا ہو گا۔ چین نے ایسا کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ تاہم انڈیا نے پاک انڈیا تعلقات کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے۔

اگر انڈیا ایسا کرنے سے اجتناب کرتا ہے اور چین کے تحفظات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر چین بھی نئی دہلی کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں حریفوں کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں۔

تاہم اس بہتری کی ایک اور اہم کڑی امریکہ کے ناقابل پیشن گوئی صدر ٹرمپ ہیں۔ فی الحال ٹرمپ کی مخاصمانہ تجارتی پالیسیاں انڈیا اور چین کو قریب آنے پر مجبور کر رہی ہیں لیکن اگر ٹرمپ کی پالیسی تبدیل ہوتی ہے تو ان تعلقات میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئے گی۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو پڑوسی ممالک کے تعلقات میں بہتری ایس سی او اور برکس کو مضبوط کر سکتی ہے کیونکہ ان دونوں تنظیموں میں دنیا کی دو بڑی مارکیٹیں، چار جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک، دنیا کی چار بڑی عسکری طاقتیں، رقبے کے لحاظ سے دنیا کے ساتھ بڑے ممالک اور قدرتی وسائل سے مالا مال کئی ممالک ہیں، جو امریکی اور مغربی بالادستی کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر