مشرق وسطی میں ٹرمپ کے اہم سفارت کار تھامس جے بارک کون ہیں؟

بارک کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی دوستی دہائیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کے سینیئر مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

28 اپریل 1947 کو کیلیفورنیا میں پیدا ہونے والے، تھامس جوزف بارک جونیئر ایک کیتھولک خاندان سے ہیں (خاکہ: انڈپینڈنٹ عربیہ)

وہ مسکراتے احتیاط سے ہیں، لہذا آپ کو لگتا ہے کہ شاید وہ مسکرانا نہیں چاہتے۔ وہ پرسکون، پر اعتماد لہجے میں بولتے ہیں۔ ان کے چہرے کے خدوخال ایسے ناہموار ہیں جیسے وہ دنیا کی تمام جنگوں میں لڑے ہوں۔ وہ اپنے بالوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور بولتے وقت اپنے ہاتھوں کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں البتہ اپنی عملیت پسندی اور لچک کے لیے جانے جاتے ہیں۔

یہ نسبتاً لمبا، دبلا پتلا اور مضبوط ارب پتی سرمایہ کار تھامس جے بارک ہیں، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے قابل اعتماد افراد میں سے ایک ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ میں دوہرے عہدوں - امریکی سفیر برائے ترکی اور شام کے لیے خصوصی نمائندے کے طور پر ایک غیر روایتی سفارتی مشن انجام دے رہے ہیں۔

چالیس سال سے زیادہ کے مالی، قانونی، اور حکومتی تجربے کو مشرق وسطیٰ میں اپنے گہرے تجارتی تعلقات اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ’ذاتی دوستی‘ کے ساتھ ملا کر، بارک نے ایک نتائج پر مبنی نقطہ نظر اپنایا ہے جسے وہ ’ایونٹ ڈپلومیسی‘ کہتے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لبنانی نژاد امریکی تاجر کو ٹرمپ کے امیر ترین افراد اور قریبی دوستوں میں سے ایک قرار دیا۔ اس رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار نے 1991 میں دیوالیہ S&Ls کو خریدنے کے لیے کالونی کیپیٹل کی بنیاد رکھی، جو اب 34 ارب ڈالر کے اثاثوں کا انتظام کرتی ہے۔

بارک کو مارچ 2025 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ترکی کا سفیر نامزد کیا گیا، جس کو اپریل 2025 میں سینیٹ کی توثیق حاصل ہوئی اور انہوں نے 14 مئی 2025 کو باضابطہ طور پر اپنے فرائض کا آغاز کیا۔ اس تقرری کے فوراً بعد، 23 مئی 2025 کو انہیں شام کے لیے امریکی خصوصی نمائندے کے طور پر بھی مقرر کیا گیا، جبکہ وہ انقرہ میں اپنے سفارتی کردار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

28 اپریل 1947 کو کیلیفورنیا میں پیدا ہونے والے، تھامس جوزف بارک جونیئر ایک کیتھولک خاندان سے ہیں جو لبنان سے نقل مکانی کر کے آیا تھا۔ وہ اپنے سفارتی سرگرمیوں میں اس ورثے کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔

جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم کے بعد، انہوں نے مالیات کے وکیل کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا۔ 1972 میں انہیں سعودی عرب بھیجا گیا، جہاں انہوں نے ایک سعودی شہزادے کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔ 1982 میں انہیں صدر رونالڈ ریگن کی جانب سے اندرونی امور کا نائب سیکریٹری مقرر کیا گیا۔

انقرہ میں اپنی تقرری کے دوران، بارک نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ ترکی ایک اہم علاقائی کردار اور نیٹو کا اتحادی ہے جسے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ اس کی مستحق شناخت نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ اور صدر رجب طیب اردوغان کے درمیان مضبوط ذاتی تعلق پر بھروسہ کرتے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بحال کیا جا سکے۔

بارک کی شام کے لیے خصوصی نمائندے کے طور پر تقرری نے دسمبر 2024 میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد واشنگٹن کی شام کی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کی نشان دہی کی۔ ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی ماضی کی ’قوم کی تعمیر‘ کی کوششوں سے دور ہو رہی ہے، اور اس کا مرکز پابندیاں اٹھانا، اقتصادی تعمیر نو، اور استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

بارک اس نقطہ نظر کو ’ایونٹ ڈپلومیسی‘ نہ کہ ’پروسیس ڈپلومیسی‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ اس میں ’عمل اور نتائج‘ کو ترجیح دی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پالیسی کا پہلا قدم 14 مئی کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے ساتھ اٹھایا گیا کہ شام کے خلاف تمام پابندیاں ختم کر دی جائیں۔ اس کے فوراً بعد، 23 مئی کو، خزانہ کے محکمے نے شام کے خلاف جامع پابندیاں اٹھانے کے لیے ایک عمومی لائسنس جاری کیا اور سیزر ایکٹ کے تحت پابندیوں کے لیے 180 دن کی چھوٹ فراہم کی۔

اس عمل کو منظم کرنے کے لیے، بارک نے 24 مئی کو استنبول میں شام کے عبوری سربراہ احمد الشرع سے ملاقات کی، اور پھی 29 مئی اور 9 جولائی کو دمشق میں ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے ٹھوس نتیجے کے طور پر، 29 مئی کو شام اور قطری، امریکی، اور ترک کمپنیوں کے کنسوریم کے درمیان سات ارب ڈالر کی توانائی کا معاہدہ ہوا۔

بارک کی سفارتی کوششیں لبنان تک بھی پھیل چکی ہیں۔ انہوں نے گذشتہ ہفتے بیروت کا دورہ کیا تاکہ لبنان کی حکومت سے امریکی تجویز کا جواب حاصل کر سکیں جو حزب اللہ اور دیگر مسلح گروہوں کے غیر مسلح کرنے کے بارے میں تھی۔ اگرچہ بارک نے کہا کہ وہ سات صفحات کے جواب سے ’بےحد خوش‘ ہیں، تاہم اس کی تفصیلات عوامی نہیں کی گئیں۔ رپورٹس کے مطابق امریکی تجویز حزب اللہ کے غیر مسلح کرنے کو لبنان کے لیے اقتصادی اصلاحات اور ملک میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے خاتمے سے جوڑتی ہے۔

اپنے کیریئر کے دوران، انہوں نے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں سرمایہ کاروں اور حکومتوں کے ساتھ ایک وسیع عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔

بارک کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی دوستی دہائیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کے سینیئر مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور انتخابات کے بعد، 58 ویں صدارتی افتتاحی کمیٹی کے صدر کے طور پر خدمات سرانجام دیں، جس میں 100 ملین ڈالر سے زیادہ کی عطیات جمع کیے گئے۔

اچانک، ٹام بیرک اس خطے میں بہت سے مہم جو انسان کے طور پر نمودار ہوا اور ایک ایسا نام بن گیا جسے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں نظر انداز کرنا مشکل ہے۔

اس مضمون کی تیاری میں انڈپینڈنٹ عربیہ اور ترکی کی ویب سائٹ ہاریچی سے مدد لی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین