امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے شام کے نئے صدر کی قیادت میں کام کرنے والے گروہ تحریر الشام کی دہشت گرد تنظیم کی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا نفاذ منگل سے ہو گا۔
پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ یہ فیصلہ، ’نئے شامی صدر احمد الشرع کی قیادت میں حکومت کی مثبت کارروائیوں کو تسلیم کرتا ہے۔‘
یہ اقدام سابق صدر بشار الاسد کی گذشتہ سال کے آخر میں برطرفی کے بعد قائم ہونے والی شام کی عبوری حکومت سے وسیع تر امریکی روابط کا حصہ ہے۔
پیر کو ہی وفاقی رجسٹر میں ایک پیشگی نوٹس شائع ہوا، جس میں کہا گیا کہ روبیو نے یہ فیصلہ 23 جون کو اٹارنی جنرل اور وزیر خزانہ سے مشاورت کے بعد کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس فیصلے کا پہلے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا تھا، اگرچہ یہ اُس وقت کیا گیا جب ٹرمپ انتظامیہ اسد کے دورِ حکومت میں عائد کی گئی متعدد امریکی پابندیوں کو نرم کرنے یا ختم کرنے کی جانب بڑھ رہی تھی۔
یہ اقدام شام کی عالمی تنہائی کو مزید ختم کرنے کی کوشش ہے، جو اس وقت سے جاری ہے جب ایک تیز رفتار باغی حملے نے اسد خاندان کو کئی دہائیوں کی حکمرانی سے بے دخل کر دیا، اور اب نئی حکومت ملک کو 13 سالہ خانہ جنگی کی تباہ کاریوں سے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ عشائیے سے قبل ایک بار پھر کہا کہ انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ شام کا نیا رہنما ’انتہائی سخت پس منظر‘ سے تعلق رکھتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا، ’میں نے کہا، ‘ٹھیک ہے، مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی۔ یہ دنیا کا سخت خطہ ہے۔‘
لیکن میں ان سے بہت متاثر ہوا۔ لیکن ہم نے پابندیاں اس لیے ہٹائیں کیوں کہ ہم اُنہیں ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔‘
مختصر نوٹس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ النصرہ فرنٹ جسے اب تحریر الشام کہا جاتا ہے کو دہشت گرد تنظیم کے درجے سے کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر ہٹایا گیا۔
النصرہ فرنٹ کو اس کی القاعدہ سے سابقہ وابستگی کی بنیاد پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا۔ 2017 میں، اس نے القاعدہ سے تعلق ختم کر کے اپنا نام تحریر الشام رکھ لیا، اور پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے اس نئے نام کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔
بشار الاسد کی دسمبر میں برطرفی اور الشرع کے گروہ کی قیادت میں باغیوں کی پیش قدمی کے بعد شام نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے شروع کر دیے ہیں۔
23 جون کو روبیو کے دستخط کے سات دن بعد، 30 جون کو ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کے تحت شام پر عائد کئی امریکی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی گئیں ۔ یہ وہ وعدہ تھا جو انہوں نے الشرع سے ملاقات کے دوران کیا تھا۔
روبیو نے اپنے بیان میں کہا: ’یہ دہشت گرد تنظیم کی درجہ بندی کا خاتمہ صدر ٹرمپ کے ایک مستحکم، متحد اور پرامن شام کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔‘
امریکی صدر ٹرمپ کی ریاض میں شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ’تاریخی‘ ملاقات
— Independent Urdu (@indyurdu) May 14, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/6bbIKh5Dp5 pic.twitter.com/ujCghPfd3W
نیتن یاہو، جو پیر کو ٹرمپ اور روبیو کے ساتھ میز پر بیٹھے تھے، نے شام میں قیادت کی تبدیلی کو ’استحکام، سکیورٹی اور بالآخر امن کے لیے ایک موقع‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا: ’تنازع کی طرف واپس جانے سے بہت کچھ کھویا جا سکتا ہے، اور امن کی طرف بڑھنے سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔‘
ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر سے وہ پابندیاں ختم نہیں ہوئیں جو اسد، ان کے قریبی ساتھیوں، اہل خانہ، اور ان افراد پر عائد تھیں جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، منشیات کی سمگلنگ یا کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
اسی طرح وہ اہم امریکی پابندیاں بھی برقرار رہیں جو کانگریس نے منظور کی تھیں اور جو کسی کو بھی شام کی فوج، انٹیلی جنس یا دیگر مشکوک اداروں کے ساتھ کاروبار یا معاونت سے روکتی ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان پابندیوں، جنہیں سیزر ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے — پر عارضی استثنیٰ دیا ہے، لیکن انہیں مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔