احمد الشرع: سر پر کروڑ ڈالر کے انعام سے ٹرمپ سے ملاقات تک

یہ ملاقات کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ احمد الشرع القاعدہ کے سابق رکن رہ چکے ہیں اور ایک زمانے میں امریکہ نے ان کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم مقرر کر رکھی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منگل کو اعلان کیا ہے امریکہ گذشتہ کئی برس سے شام پر عائد پابندیوں کو ہٹا رہا ہے۔

آج یعنی 14 مئی کو امریکی صدر نے اپنے وزیر خارجہ کے ہمراہ شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے علاوہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان بھی شامل تھے۔

یہ ملاقات کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ احمد الشرع القاعدہ کے سابق رکن رہ چکے ہیں اور ایک زمانے میں امریکہ نے ان کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم مقرر کر رکھی تھی۔

امریکی ٹیلی ویژن سی این بی سی کے مطابق سعودی عرب اور ترکی نے شام پر امریکی پابندیاں ہٹائے جانے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ وائٹ ہاؤس کے عہدیدار بھی کہہ چکے ہیں کہ کئی مسلمان ممالک کے سربراہوں نے شام پر عائد پابندیوں کو ہٹائے جانے کے حق میں بیانات جاری کیے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ سی این این کے مطابق امریکی حکومت نے احمد الشرع کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر بھی مقرر کر رکھی تھی جس کی وجہ ان کا شدت پسند گروہوں کے ساتھ تعلق بتایا گیا تھا۔

جبکہ ان کی تنظیم ہیۃ التحریر الشام امریکی، برطانیہ، ترکی اور یورپی یونین مین دہشت گرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی ان کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔

یہ تنظیم ابھی بھی کئی ممالک میں دہشت گرد سمجھی جاتی ہے۔

احمد الشرع جنوری میں اس وقت شام کے صدر بنے تھے جب گذشتہ برس ان کی سربراہی میں مسلح گروہ ہیۃ تحریر الشام نے شام میں 54 برس سے قائم اسد خاندان کی حکومت کا تختہ الٹا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب کے بعد قطر جاتے ہوئے اپنے طیارے ایئرفورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ایک مضبوط اور طاقتور شخص ہیں جن کا ماضی بہت تگڑا رہا ہے۔ وہ ایک جنگجو ہے۔‘

ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کے پاس اپنے ملک کو کامیاب کرنے کا موقع ہے۔ میری صدر اردوغان سے بات ہوئی ہے جن کے ان کے ساتھ بہت دوستانہ تعلقات ہیں۔ ان کے پاس ایک تباہ حال ملک کے لیے بہت اچھا کام کرنے کا موقع ہے۔‘

ترکی کی حمایت

یہ بات قابلِ غور ہے کہ ٹرمپ اور الشرع کی ملاقات کروانے میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ خود ان دونوں کے درمیان ملاقات میں آن لائن شریک تھے۔

ترکی کی شام میں دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد لاکھوں شامی شہری پڑوسی ممالک سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک پناہ گزینوں کی صورت میں منتقل ہوئے۔ جن کی بہت بڑی تعداد ترکی منتقل ہوئی۔

بی بی سی کی دسمبر 2024 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں 30 لاکھ شامی بطور پناہ گزین موجود ہیں۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈوچے ویلے کے مطابق ’سال 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ترکی نے حکومت مخالف فورسز کا ساتھ دیا۔ ماہرین کے مطابق ترکی کی حمایت کے بغیر ہیت التحریر الشام کے لیے اسد کی حکومت الٹنا ممکن نہ تھا۔‘

اس لیے یہ بات ترکی کے مفاد میں ہے کہ شام میں ان کی مرضی کی حکومت آئے تاکہ ترکی میں موجود شامی پناہ گزین اپنے وطن لوٹ سکیں۔

احمد الشرع کون ہیں؟

احمد الشرع کے خاندان کا تعلق شام کے علاقے جولان سے ہے، اور اسی مناسبت سے وہ الجولانی کہلاتے ہیں۔ جب 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تو ان کا خاندان ہجرت کر کے سعودی عرب چلا گیا۔ احمد الشرع 1982 میں سعودی دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔

الشرع کے والد سعودی عرب میں بطور انجینیئر کام کرتے تھے۔ ان کا خاندان 1989 میں شام واپس آیا۔

عراق پر امریکی حملے کے بعد وہ عراق منتقل ہو گئے جہاں وہ القاعدہ فی العراق میں شامل ہو گئے۔ 2005 میں امریکی فورسز نے انہیں گرفتار کیا اور کیمپ بکا نامی جیل میں قید کر دیا۔ یہ جیل ان شدت پسندوں کے لیے مخصوص تھی جنہیں امریکی انتظامیہ بہت خطرناک سمجھتی تھی۔

سال 2009 میں اس کیمپ کو بند کیا گیا تو احمد الشرع کو بھی رہا کر دیا گیا۔ رہائی پر وہ دوبارہ القاعدہ فی العراق میں شامل ہو گئے جس نے 2006 میں اپنا نام بدل کر دولت اسلامیہ فی العراق رکھ لیا تھا۔

احمد الشرع اب بھی عراق میں دہشت گردی کے الزامات کے لیے مطلوب ہیں۔

سال 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی نے احمد الشرع کو جنگ میں حصہ لینے کے لیے روانہ کیا۔

الشرع نے شامل میں جبہتہ النصرہ نامی گروہ کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اس گروہ نے داعش سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے القاعدہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نومبر 2024 میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد احمد الشرع کے گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد نے شام میں انتظامیہ کے عہدے سنبھالے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق احمد الشرع کی حکومت ایک قومی فوج تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں تمام مسلح گروہوں کو شامل ہونے کا کہا گیا لیکن کئی گروہ ابھی تک اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔

2025 کی 100 بااثر ترین شخصیات میں سے ایک

اپریل 2025 کے شمارے میں ٹائمز میگزین نے احمد الشرع کو سال 2025 کی 100 با اثر شخصیات والی فہرست کا حصہ بنایا۔ اس فہرست میں برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس اور ایلون مسک سمیت دنیا کے کئی اہم سیاسی رہنما شامل تھے۔

ٹائمز میگزین نے ان کی پروفائل شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ’گذشتہ دسمبر، برسوں تک ایک طاقتور مسلح گروہ ہیت تحریر الشام (جسے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے) بنانے کے بعد، احمد الشرع اور ان کے باغی اتحاد نے بالآخر شام میں بشار الاسد کی حکومت کو گرا دیا۔

’کبھی القاعدہ اور پھر داعش سے وابستہ رہنے والے، نرم لہجے والے الشرع نے بعد میں انہی گروپوں کے خلاف سخت جنگ لڑی تاکہ اس کے جنگجو صرف اُسی کے ماتحت رہیں۔ حالیہ برسوں میں، اس نے دیگر شامی باغیوں سے، اکثر بندوق کی نوک پر، اتحاد قائم کیے اور ترکی کی حمایت حاصل کی۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا