میں نے شامی صدر کی سیاسی تربیت کی: امریکی سفیر کا انکشاف

شام کے عبوری صدر احمد الشرع کو جنگجو سے سیاست دان بنانے کا دعویٰ کرنے والے امریکی سفیر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل۔

یکم مئی 2025 کو، سفیر رابرٹ فورڈ شام میں نئی حکومت کے مستقبل کے ساتھ ساتھ خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں (سکرین گریب، یو ٹیوب، بالٹی مور کونسل آن فارن افیئرز)

شام اور الجزائر میں سابق امریکی سفیر رابرٹ فورڈ کا سات مئی کو اپ لوڈ ہونے والا ایک ویڈیو لیکچر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں فورڈ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے شام کے عبوری صدر احمد الشرع کی سیاسی تربیت کی تھی۔

اس لیکچر میں رابرٹ فورڈ بتا رہے ہیں ان کی اور الشرع کی ملاقات ایک برطانوی غیر سرکاری تنظیم کی دعوت پر ہوئی، جس کا مقصد الشرع کو ’دہشت گردی کی دنیا‘ سے نکال کر روایتی سیاست کی دنیا میں لانا تھا۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 14 مئی کو ریاض میں احمد الشرع سے ملاقات کی تھی جس میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی موجود تھے۔

یہ ملاقات اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی کیوں کہ احمد الشرع القاعدہ کے سابق رکن رہ چکے ہیں اور ایک زمانے میں امریکہ نے ان کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم مقرر کر رکھی تھی۔

رابرٹ فورڈ نے یکم مئی کو ’شام میں باغی جیت چکے ہیں۔۔۔ آگے کیا ہو گا؟ ‘Syrian Rebels Win - Now What? کے عنوان سے ایک لیکچر دیا تھا جو ایک ہفتہ قبل بالٹی مور کونسل آن فارن ریلیشنز کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ ہوا۔

اس لیکچر کے دوران فورڈ کہتے ہیں، ’2023 میں ایک برطانوی غیر سرکاری تنظیم جو تنازعات کے حل میں مہارت رکھتی ہے، نے مجھے دعوت دی کہ میں اس شخص کو دہشت گردی کی دنیا سے نکال کر عام سیاست میں متعارف کروانے میں ان کی مدد کر سکوں۔ 

’جب میں پہلی بار اس سے ملا، اس شخص کی جنگی کنیت الجولانی تھی۔ لیکن اس کا اصل نام احمد شرع تھا۔ اس کا نام کا انکشاف اس نے وقت کیا جب اس نے دسمبر 2024 کی جنگ کے بعد دمشق فتح کر لیا۔ پہلی بار جب میں اس سے ملا تو میں اس سے اتنا قریب تھا جتنا روئے ہے (سٹیج پر ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)، اور میں نے عربی میں کہا کہ میں دس لاکھ سال میں آپ کو یہاں دیکھنے کی توقع نہیں کر سکتا تھا۔ اورانہوں نے کہا کہ میں آپ کو حیران کرتا رہوں گا۔‘

فورڈ نے کہا کہ میں یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ الشرع نے کبھی عراق یا شام میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے لیے معافی نہیں مانگی، البتہ شام میں بہت کم حملے ہوئے۔ 

البتہ انہوں نے کہا کہ اب میں شمالی شام کے علاقے پر حکومت کر رہا ہوں جس پر پہلے حزبِ اختلاف کی حکومت تھی اور وہ طور طریقے جو میں نے عراق میں سیکھے تھے، یہاں ان کا اطلاق نہیں ہوتا کیوں کہ میں 40 لاکھ لوگوں پر حکومت کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں سیکھ رہا ہوں کہ حکومت کرنے کے لیے آپ کو سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔

یہ مارچ 2023 کی بات تھی۔ اس کے بعد میں ستمبر میں دوبارہ ان سے ملا۔

فورڈ نے کہا کہ میں نے مقامی مسیحیوں سے پوچھا کہ ان کے کیا حالات ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ پہلے کے مقابلے پر بہت بہتر ہیں اور وہ ان کے گھر اور کھیت انہیں واپس کر دیے گئے ہیں جو خانہ جنگی کے دوران ان سے چھین لیے گئے تھے۔

احمد الشرع: جنگجو سے شام کے صدر تک

احمد الشرع جنوری میں اس وقت شام کے صدر بنے تھے جب 2024 کے آخر میں ان کی سربراہی میں مسلح گروہ ہیۃ تحریر الشام نے شام میں 54 برس سے قائم اسد خاندان کی حکومت کا تختہ الٹا۔

احمد الشرع القاعدہ فی العراق کے رکن رہ چکے ہیں۔ 2005 میں امریکی فورسز نے انہیں گرفتار کر کے کیمپ بکا نامی جیل میں قید کر دیا۔ یہ جیل ان شدت پسندوں کے لیے مخصوص تھی جنہیں امریکی انتظامیہ بہت خطرناک سمجھتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 2009 میں اس کیمپ کو بند کیا گیا تو احمد الشرع کو بھی رہا کر دیا گیا۔ رہائی پر وہ دوبارہ القاعدہ فی العراق میں شامل ہو گئے جس نے 2006 میں اپنا نام بدل کر دولت اسلامیہ فی العراق رکھ لیا تھا۔

احمد الشرع اب بھی عراق میں دہشت گردی کے الزامات کے لیے مطلوب ہیں۔

سال 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی نے احمد الشرع کو جنگ میں حصہ لینے کے لیے روانہ کیا۔

الشرع نے شام میں جبہتہ النصرہ نامی گروہ کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اس گروہ نے داعش سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے القاعدہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔

نومبر 2024 میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد احمد الشرع کے گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد نے شام میں انتظامیہ کے عہدے سنبھالے۔

اپریل 2025 کے شمارے میں ٹائمز میگزین نے احمد الشرع کو سال 2025 کی 100 بااثر ترین شخصیات والی فہرست کا حصہ بنایا۔ اس فہرست میں برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس اور ایلون مسک سمیت دنیا کے کئی اہم سیاسی رہنما شامل تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا