اسرائیل نے جمعے کی شب شام میں 20 سے زائد فضائی حملے کیے۔ جنگ پر نظر رکھنے والی تنظیم کے مطابق، اس سے پہلے دمشق میں صدارتی محل کے قریب حملہ کیا گیا جس کی ملک کے اسلام پسند حکمرانوں نے 'خطرناک جارحیت' قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔
اسرائیل کی جانب سے یہ حملے شامی حکومت کو دروز اقلیت کو نقصان نہ پہنچانے کی تنبیہ کے بعد کیے گئے۔ حال ہی میں اس فرقے کے ساتھ فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں۔
شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسرائیل نے اس سال کے دوران اپنے پڑوسی ملک شام پر یہ اب تک کے شدید ترین حملے کیے جن میں فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
شام کی سرکاری نیوز ایجنسی سانا کے مطابق اسرائیلی حملے دمشق کے قریب، مغربی علاقوں لطاکیہ اور حما، اور جنوب میں درعا کے علاقوں میں کیے گئے۔ ان حملوں میں دمشق کے قریب حرستا میں ایک شہری جان سے گیا جبکہ حما کے قریب چار افراد زخمی ہوئے۔
اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کی افواج نے شام میں ایک فوجی تنصیب، طیارہ شکن توپوں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا، تاہم مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
یہ اسرائیلی حملے اس وقت ہوئے جب دروز علما اور مسلح دھڑوں نے دمشق سے اپنی وفاداری کا اعادہ کیا۔ اس سے پہلے دمشق کے قریب جرمانا اور صحنايا کے علاوہ صوبہ سویدا میں دروز عسکریت پسندوں اور شام کی سرکاری افواج، بشمول حکومت سے منسلک گروپوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
سیرین آبزرویٹری کے مطابق ان جھڑپوں میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔
صوبہ سویدا، دروز مذہبی گروپ کا مرکز ہے، جہاں جمعے کو ایک کھیت میں بظاہر ڈرون حملے میں چار دروز جنگجو مارے گئے۔ آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اسرائیلی تھا۔ سانا نے بھی اسے اسرائیلی حملہ قرار دیا۔
’اسرائیل کا واضح پیغام‘
دمشق میں صدارتی محل کے علاقے میں صبح سویرے ہونے والے دھماکے کی آواز پورے شہر میں سنی گئی جس کے بعد عالمی سطح پر تشویش پیدا ہو گئی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان اویخائے ادرعی نے کہا کہ ’جنگی طیاروں نے دمشق میں قائم مقام صدر احمد حسین الشرع کے محل کے قریب علاقے پر حملہ کیا۔‘
اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اپنے مشترکہ بیان میں اسے دسمبر میں بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے والے شام کے حکمرانوں کے لیے ’واضح پیغام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم دمشق کے جنوب میں فوجی دستوں کی تعیناتی یا دروز برادری کو لاحق کسی بھی خطرے کو برداشت نہیں کریں گے۔‘
شامی ایوان صدر نے حملے کو ’ریاستی اداروں کے خلاف خطرناک جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر ملک کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگایا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شام سے متعلق اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے ’فرقہ وارانہ نوعیت کی مہلک جھڑپوں‘ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں سے عام شہریوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
’غیرقانونی گروپ‘
شام کے نئے حکمرانوں کے حامی قطر اور سعودی عرب نے اسرائیل کی ’جارحیت‘ کی مذمت کی ہے۔ جرمنی کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، ’شام کو علاقائی کشیدگیوں کا میدان نہیں بننا چاہیے۔‘
اسلام پسند قوتوں کے ہاتھوں بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے اب تک اسرائیل سینکڑوں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا چکا ہے۔
اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی اور شامی افواج کے درمیان قائم غیر فوجی علاقے میں بھی اپنے فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں۔
بدھ کو بھی اسرائیل نے دمشق کے قریب حملے کیے تھے اور دھمکی دی تھی کہ اگر دروز برادری کے خلاف تشدد جاری رہا تو مزید حملے کیے جائیں گے۔
’نسل کُشی کی مہم‘
سویدا میں مذہبی رہنماؤں اور عسکری دھڑوں نے ایک اجلاس کے بعد کہا کہ وہ ’متحد شامی وطن کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں‘ اور انہوں نے ’تقسیم، علیحدگی یا خودمختاری‘ کو مسترد کر دیا۔
سانا کے مطابق، سویدا میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سکیورٹی فورسز روانہ کی جا رہی ہیں۔
یہ اقدام اس کے بعد کیا گیا آیا جب جمعرات کو دروز برادری کے روحانی پیشوا شیخ حکمت الحجری نے اپنی قوم کے خلاف جاری کارروائیوں کو ’نسل کُشی کی مہم‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔
شام کے نئے حکمرانوں کی جڑیں القاعدہ کے جہادی نیٹ ورک سے جڑی ہیں۔ ان کی جانب سے ملک میں تمام فرقوں اور قومیتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا وعدہ کیا گیا ہے مگر انہیں ملک کے اندر انتہاپسند اسلام پسندوں کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔