حقوق انسانی کے ایک نگران ادارے نے جمعے کو بتایا کہ شام میں معزول حکمراں بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں اور حکومتی سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی میں 71 سے زیادہ افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
شامی حکومت نے سابق صدر بشار الاسد کے وفادار جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں کے بعد جمعے کو ایک وسیع سکیورٹی آپریشن شروع کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا: ’شام کے ساحل پر وزارت دفاع اور داخلہ کے ارکان اور حکومت کی فوج کے جنگجوؤں کے درمیان خونریز جھڑپوں اور گھات لگا کر حملوں میں 70 سے زیادہ افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی اور پکڑے گئےہیں۔
شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے جمعرات کو اطلاع دی تھی کہ لاذقیہ صوبے میں جھڑپوں کے دوران بشار الاسد کے وفادار 28 جنگجو ہلاک ہو گئے، جبکہ 16 سکیورٹی اہلکار اور چار شہری بھی مارے گئے۔
یہ لڑائی دسمبر میں بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد ہونے والی سب سے شدید جھڑپوں میں شمار کی جا رہی ہے، خاص طور پر جبلہ شہر اور آس پاس کے دیہات میں۔
برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری کے مطابق مارے جانے والے زیادہ تر سکیورٹی اہلکار شمال مغربی شام کے علاقے ادلب سے تعلق رکھتے تھے، جو کہ باغیوں کا ایک مضبوط گڑھ رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق شامی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے رپورٹ کیا کہ لاذقیہ میں سکیورٹی فورسز نے مقامی وقت رات 10 بجے تک کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
لاذقیہ کے سکیورٹی افسر مصطفیٰ کنیفاتی نے بتایا کہ ’ایک منظم اور پہلے سے طے شدہ حملے میں، اسد ملیشیا کے بچے کھچے گروہ نے ہمارے ٹھکانوں اور چیک پوسٹوں پر حملہ کیا اور جبلہ کے علاقے میں ہماری گشت پر حملے کیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان حملوں میں ’ہماری فورسز کے متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے‘ لیکن اموات کی حتمی تعداد نہیں بتائی۔
سرکاری میڈیا سانا نے اطلاع دی ہے کہ سکیورٹی فورسز نے جنرل ابراہیم حویجہ کو گرفتار کر لیا ہے، جو بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دور میں درجنوں قتل کے الزامات میں مطلوب تھے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ’ہماری فورسز نے جبلہ میں مجرم جنرل ابراہیم حویجہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ حافظ الاسد کے دور میں سینکڑوں قتل کے الزامات میں مطلوب تھے۔‘
ابراہیم حویجہ 1987 سے 2002 تک ایئر فورس انٹیلیجنس کے سربراہ رہے، اور 1977 میں لبنانی دروز رہنما کمال جنبلاط کے قتل کے الزام میں بھی مشتبہ تھے۔ ان کے بیٹے اور جانشین ولید جنبلاط نے ان کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا: ’اللہ اکبر۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاذقیہ کے ایک اور گاؤں میں سکیورٹی فورسز نے اسد دور کے خصوصی فورسز کے کمانڈر سہیل الحسن کے وفادار مسلح گروہوں سے جھڑپیں کیں، جس میں ہیلی کاپٹر اور توپ خانے کے حملے بھی شامل تھے۔
سہیل الحسن، جنہیں ’ٹائیگر‘ کہا جاتا تھا، بشار الاسد کے پسندیدہ فوجی سمجھے جاتے تھے اور 2015 میں شامی فوج کی اہم فتوحات کے ذمہ دار تھے۔
شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق، ’شامی فوج نے بیت انا گاؤں اور قریبی جنگلات میں مسلح افراد پر ہیلی کاپٹر سے حملے کیے، جس کے ساتھ ساتھ توپ خانے سے ایک نزدیکی گاؤں پر بھی گولہ باری کی گئی۔‘
سانا نے رپورٹ کیا کہ اسد نواز ملیشیا کے مسلح افراد نے وزارت دفاع کی فوج پر فائرنگ کی، جس سے ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
غیر ملکی میڈیا اور عوامی ردعمل
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ اس کے فوٹوگرافر ریاض الحسین جھڑپوں میں زخمی ہوئے لیکن ان کی حالت بہتر ہے۔
سانا کے مطابق، جبلہ میں بڑے پیمانے پر فوجی کمک روانہ کر دی گئی ہے، اور علوی رہنماؤں نے فیس بک پر ایک بیان میں حکومت کے ہیلی کاپٹر حملوں کے خلاف ’پرامن احتجاج‘ کی اپیل کی ہے۔
علوی آبادی والے علاقوں، بشمول لاذقیہ، بندرگاہی شہر طرطوس اور حمص میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔