عمان کے مفتی اعظم شیخ احمد بن حمد الخلیلی نے بعض اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کو جمعے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ممالک خود اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’اس (اسرائیل) کا وجود قائم نہیں رہے گا،‘ پھر بھی اس کے ساتھ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔
شیخ احمد بن حمد الخلیلی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا: ’یہ حیران کن ہے کہ کچھ ممالک صیہونی دشمن کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں جبکہ وہ خود جانتے ہیں کہ اس کا وجود مٹنے والا ہے۔‘
اسرائیل کا نام لیے بغیر مفتی اعظم نے کہا کہ ’اس کے باشندے صرف جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنی وقتی بقا کو برقرار رکھ سکیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے لوگ خود جانتے ہیں کہ اس زمین پر انہیں کبھی چین اور سکون نہیں مل سکتا۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’جو لوگ ایک مٹتے ہوئے وجود اور زوال پذیر اقتدار سے جڑے رہنے پر اصرار کر رہے ہیں، کیا انہیں اس بات کا خوف نہیں کہ ان کی یہ مفاہمت آخر کار خسارے کا سودا ثابت ہو گی؟ یہ کیسا افسوس ناک سانحہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مفتی اعظم نے مزید کہا کہ ’اگر آپ اس سانحے کی شدت اور المیے کی گہرائی کو سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ سوچیں کہ اگر معمول کے تعلقات کسی ایسی قابض ریاست کے ساتھ ہوتے جو کبھی سفارت کاری کا لبادہ اوڑھ لیتی یا کبھی اپنا مہذب چہرہ دکھانے کی کوشش کرتی تو شاید اسے وقتی حکمت عملی قرار دیا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو معاملہ ایسے وحشی قابض کا ہے جو معصوم بچوں، خواتی اور بزرگوں کی لاشوں پر پلتا ہے تو اس کے ساتھ کیسی مفاہمت؟ جب اس (ریاست) کو (ہمارے) دینی اور نسلی بھائیوں کو قتل کرنے پر انعام دیا جاتا ہے؟ کیسے، جب اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اپنے جائز حقوق سے دستبرداری کے مترادف ہے؟‘
انہوں نے عربی کے ایک شعر کے ساتھ اپنی بات مکمل کرتے ہوئے لکھا: ’مصیبت کے وقت بدی کو اچھا سمجھنا سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔‘
شیخ احمد بن حمد الخلیلی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عبرانی میڈیا نے ایک شامی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور شام کے درمیان 2025 کے آخر تک امن معاہدہ ہو سکتا ہے۔
گذشتہ ماہ امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف نے بھی کہا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ابراہام معاہدے کے دائرے کو مزید وسیع کیا جائے۔