فنکاروں کے دکھ

ہمیں اپنے حقوق، مسلسل آمدن، پینشن اور دیگر مسائل کا مستقل بنیادوں پہ حل خود ہی تلاش کرنا ہوگا۔

حمیرا اصغر نے 2014 میں ویٹ مس سپر ماڈل کا مقابلہ جیتنے کے بعد شہرت حاصل کی اور 2022 میں رئیلٹی شو ’تماشا گھر‘ میں شرکت کی (حمیرا اصغر/ انسٹاگرام)

پچھلے دنوں ایک کانفرنس کے دوران ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر نے بتایا کہ ایک یونیورسٹی میں اس بات پہ جھگڑا ہو گیا کہ فلم ڈپارٹمنٹ کو اوپر کی منزل الاٹ کی گئی ہے جبکہ ایک خاص مضمون کو اس سے نچلی منزل۔

جملہ اساتذہ ڈپارٹمنٹ ہذا مشتعل ہوئے اور نامناسب لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ہمارے سر پہ نہ چڑھائیں۔

معاملہ حل ہوا فلم ڈپارٹمنٹ کو نچلی منزل پہ اتارا گیا، انصاف کا بول بالا ہوا اور فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے طلبا کو ایک بہترین سبق بھی مل گیا کہ آپ سب باقی دنیا کے لیے کیا ہیں۔

گو اس واقعے کے بعد ہم نے کھسیا کھسیا کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جس قبیلے سے ہمیں منسلک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ کوئی اتنے برے لوگ نہیں۔

بس ان کے سماجی معیار اور اطوار اس خطے کو گاہے گاہے کولونائیز کرنے والی جنگجو نسلوں سے مختلف تھے لیکن اس فلسفیانہ جواب سے کسی کی تشفی نہ ہوئی۔

معصوم طلبا گول گول آنکھوں سے ایسے دیکھتے رہے جیسے ایکوریم میں رکھی مچھلیاں۔

ان کی آنکھوں میں تیرتے سوال اس وقت میرے سامنے پتھر سے تراشی چٹانیں بن کے منجمد ہو گئے جب مجھے حمیرا اصغر کی موت کی خبر ملی۔

شوبز کی دنیا سے وابستہ ہم لوگوں کی زندگیوں میں سب سے اہم سوال اجازت ہے۔

مڈل کلاس گھروں سے جتنے بھی لوگ اس فیلڈ میں موجود ہیں وہ گھر سے نکالے ہوئے اور باغی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔

اگلی بات آگئی ہماری دنیا کی، جہاں ہم سب کسی نہ کسی صورت عوام کو نہ صرف تفریح فراہم کر رہے ہیں بلکہ جس حد تک ممکن ہے اپنے کام کے ذریعے سماجی بھلائی اور معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

ہم ٹیکس دیتے ہیں اور ہماری کوئی خفیہ آمدن نہیں ہوتی اور ہمارا کوئی والی وارث نہیں۔ زیادہ تر لوگ فری لانسر ہیں یعنی ایک دن کام ملا تو 10 دن بے کار۔

ہم سے جن معاہدوں پہ کام کرایا جاتا ہے ان کی شرائط کب اور کس نے متعین کیں، ہم نہیں جانتے۔ ہم میں سے بہت سوں کو تو وہ قانونی زبان سمجھ بھی نہیں آتی۔

بل ہمارے گھروں میں بھی وہی آتے ہیں اور بچے ہمارے بھی سکول کالج جاتے ہیں۔ پیٹ ہمارے ساتھ بھی لگا ہے۔ چادر اور پیروں کا تناسب ہمارا بھی پورا نہیں پڑتا۔

جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو ہمارا اور ہمارے خاندان کا کوئی پرسان نہیں ہوتا۔ مر جائیں تو جنازے کو کندھا دینے بھی کوئی نہیں آتا۔

اس کے باوجود ہم جی رہے ہیں اور جیتے چلے جا رہے ہیں ہماری آبادی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ جامعات میں فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے شعبے بڑھتے جا رہے ہیں اور ہم باقی ہیں۔

اس بقا کی جدوجہد میں ہمارا سفر ایسے ایسے اندھیرے خندوس راستوں سے ہو کر گزرتا ہے کہ کسی کے اچھے خان بھی تصور نہیں کر سکتے۔

می ٹو تحریک آئی تو دنیا کو کتنی ہی کہانیاں سننے کو ملیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہماری کہانیاں سننے کا حوصلہ دنیا میں نہیں۔

ہم میں سے کسی کو اس کی صلاحیتوں پہ کوئی اعزاز مل جائے تو ردی پیپر خریدنے والے چاچا پھتو کو بھی فکر ہو جاتی ہے کہ ’قومی اعزاز‘ کن کو دے دیا گیا؟

آرٹسٹ کی یونین ہے اور نہ کوئی تنظیم، ہماری کلبنگ ہوتی ہے اور نہ کوئی لابی، ہمیں اکیلا کر کے مارا جاتا ہے۔ 

کچھ قسمت والے بچ جاتے ہیں تو ان کی کہانی لوگ چھاپتے ہیں اور مزے لے لے کے پڑھتے ہیں اور ان سرائیوورز کے ’سرووائل موڈ‘ کے قصے سرگوشیوں میں بیان کرتے کرتے بانچھوں سے بہتی رال بھی نہیں پونچھ پاتے۔

قصہ مختصر، ہمیں جو صلاحیت ملی ہے اس کا بوجھ ہم اٹھا رہے ہیں، آپ کو ہنساتے ہیں،  ہنساتے رہیں گے۔ 

میرا کی کہانی ویسی ہی ہے جیسے شوبز کی کسی بھی لڑکی کی ہوتی ہے۔

جیتے جی وہ شاید اتنی تفریح فراہم نہ کر سکی مگر مرنے کے کئی ماہ بعد وہ اپنی بہترین پرفارمنس سے آپ سب کو حیران کر گئی۔

ایسے موقعوں پہ ہم اپنی لڑکیوں کو دعا دیتے ہیں کہ جیتی رہو، اس نے یہ داد قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

تین ساڑھے تین لاکھ میں جیا نہیں جا سکتا۔ فنکاروں کے دکھ سمجھنے کے لیے بڑی فنکاری چاہیے، تم سے نہ ہو پائے گا بھیا۔

ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ان سے سبق کون سیکھتا ہے، کہہ نہیں سکتی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اب ہمیں اپنے حقوق، مسلسل آمدن، پینشن اور دیگر مسائل کا مستقل بنیادوں پہ حل خود ہی تلاش کرنا ہوگا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر