چین نے انڈیا کی سرحد سے تقریباً 50 کلو میٹر دور تبت میں دریائے برہمپتر، جسے چین میں یارلنگ زانگبو کہا جاتا ہے، پر 170 ارب ڈالر مالیت کے ڈیم کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کر دیا۔
یہ دریا انڈین ریاست اروناچل پردیش میں داخل ہوتا ہے جہاں سے یہ آسام اور پھر بنگلہ دیش سے گزرتے ہوئے خلیج بنگال میں ضم ہو جاتا ہے۔
اسے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم قرار دیا جا رہا ہے اور اسی لیے دریا کے نچلے خطے والے ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش کو اس کے متعلق شدید تشویش لاحق ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ منصوبہ چین کے موجودہ سب سے بڑے آبی منصوبے یعنی تھری گورجز ڈیم سے بھی بڑا ہے اور اس منصوبے کی تعمیر کے اعلان کے بعد چینی تعمیراتی اور انجینئرنگ کمپنیوں کے شیئرز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بیجنگ کے لیے یہ منصوبہ ماحول دوست توانائی، روزگار اور سست ہوتی معیشت کے لیے ایک محرک ہے لیکن دریائے کے نیچے واقع ہمسایہ ممالک کے لیے یہ پرانے خدشات کو پھر سے زندہ کر رہا ہے جو یہاں کے کروڑوں لوگوں کے لیے زندگی کا ذریعہ ہے۔
منصوبہ ہے کیا؟
منصوبے کے تحت تبت کے پہاڑی علاقے میں دریا کے 50 کلومیٹر طویل حصے پر پانچ ڈیم بنائے جائیں گے جہاں دریا قدرتی طور پر دو ہزار میٹر نیچے گرتا ہے۔
منصوبے سے بجلی کی پیداوار کا آغاز 2030 کی دہائی کے آغاز یا وسط تک متوقع ہے لیکن اس کے علاوہ چین نے اس منصوبے کی تعمیر کے طریقہ کار کے بارے میں بہت کم معلومات دی ہیں۔
ہمسایہ ممالک کو خدشات کیوں ہیں؟
چین کی جانب سے معلومات کی کمی انڈیا اور بنگلہ دیش میں واٹر سیکورٹی کے خدشات کو بڑھا رہی ہے کیونکہ یہ ممالک برہمپتر دریا پر آبپاشی، بجلی، اور پینے کے پانی کے لیے انحصار کرتے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ نے سال کے آغاز میں کہا تھا کہ یہ چینی ڈیم دریا کے 80 فیصد حصے کو خشک کر سکتا ہے اور ساتھ ہی پانی چھوڑے جانے کی صورت میں نیچے والے علاقوں جیسے آسام میں سیلابی خطرات بھی بڑھا سکتا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل سٹیکلر نے روئٹرز کو بتایا کہ ڈیم سے صرف پانی ہی نہیں بلکہ مٹی کا بہاؤ بھی کم ہو جائے گا، جو زرخیز میدانی علاقوں میں زراعت کے لیے ضروری غذائی اجزا لے کر آتا ہے۔
انڈیا اور چین نے 1960 کی دہائی میں اسی علاقے میں جنگ بھی لڑی تھی۔ یونیورسٹی آف ایریزونا میں چینی امور کے ماہر سیانیانگشو موڈک نے روئٹرز کو بتایا کہ بیجنگ کی جانب سے شفافیت کی کمی اس قیاس آرائی کو بڑھا رہی ہے کہ چین کسی ممکنہ تنازعے میں پانی روکنے کے لیے اس ڈیم کو استعمال کر سکتا ہے۔
دوسری جانب چین نے ان خدشات کو مسترد کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی وزارت خارجہ نے منگل کو کہا: ’یارلنگ زانگبو پن بجلی منصوبے کی تعمیر چین کا خود مختار معاملہ ہے۔ یہ منصوبہ ماحول دوست توانائی فراہم کرے گا اور سیلاب سے بچاؤ میں مدد دے گا۔‘
چینی وزارت نے یہ بھی کہا کہ بیجنگ نے نیچے کے ممالک سے ضروری معلومات جیسے پانی کے بہاؤ، سیلاب کنٹرول اور آفات سے نمٹنے سے متعلق تعاون پر بات چیت کی ہے۔
ادھر انڈیا کی وزارت خارجہ اور وزارتِ آبی وسائل نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
کیا ڈیم سے انڈیا کو واقعی پانی کی کمی کا سامنا ہو گا؟
سیانیانگشو موڈک کے مطابق اس ڈیم کے پانی کے بہاؤ پر اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ برہمپتر دریا میں زیادہ تر پانی مونسون کی بارشوں سے آتا ہے جو ہمالیہ کے جنوب میں برستی ہیں نہ کہ چین میں۔
انہوں نے کہا کہ چین کا منصوبہ ’رن آف دی ریور‘ یعنی بہاؤ کے مطابق بجلی پیدا کرنے والا ڈیم ہے جس میں پانی اپنے قدرتی راستے پر ہی بہتا ہے۔
خود انڈیا نے بھی اس دریا پر اسی طرح کے دو ڈیم بنانے کی تجویز دی ہے جن میں سے ایک 11.5 گیگا واٹ کا منصوبہ اروناچل پردیش میں ہے جو اگر مکمل ہوا تو انڈیا کا سب سے بڑا پن بجلی منصوبہ ہو گا۔
سیانیانگشو موڈک کے مطابق ان منصوبوں کا مقصد جزوی طور پر یہ بھی ہے کہ انڈیا اپنے دریائی حقوق کا دعویٰ مضبوط کر سکے تاکہ اگر چین مستقبل میں پانی موڑنے کی کوشش کرے تو انڈیا قانونی جواز کے ساتھ کہہ سکے کہ وہ پہلے سے اس پانی کو استعمال کر رہا ہے۔
آبی تنازع نیا نہیں
ڈیموں اور پانی کے تحفظ پر جھگڑے کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان نے انڈیا پر الزام لگایا ہے کہ وہ مشترکہ پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے خاص طور پر جب انڈیا نے سندھ طاس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
اسی طرح مصر کے ایک سیاست دان نے دریائے نیل پر ایتھوپیا کے متنازع ڈیم کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی ہے۔
زلزلے اور شدید موسم کا خطرہ
یہ ڈیم ایک ایسے علاقے میں بنایا جا رہا ہے جو قدرتی آفات زلزلوں سے متاثر رہتا ہے اور جہاں مٹی کے تودے، گلیشیئر جھیلوں کا اچانک بہاؤ اور طوفانی موسم عام ہیں۔
اس علاقے میں پہلے ہی ڈیموں کی تیز رفتاری سے تعمیر نے ماہرین میں تشویش پیدا کر دی ہے، خاص طور پر جب تبت میں حال ہی میں ایک شدید زلزلہ آیا تھا۔
یہاں ایک اور چھوٹا پن بجلی منصوبہ جو قریب ہی ایک معاون دریا پر بنایا جا رہا ہے، وہ بھی صرف چار مہینوں کے مختصر تعمیراتی دورانیے کے بعد تعطل کا شکار ہے کیونکہ اونچائی اور سخت سردیوں کی وجہ سے انجینئرنگ کے شدید چیلنجز درپیش ہیں۔