انڈیا کسی صورت پاکستان کا پانی بند نہیں کر سکتا: آبی ماہر

کرٹیکل جیوگرافی کے پروفیسر دانش مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ وہ پاکستان کا پانی بند کر سکے۔

آج کل پاکستان میں سخت بےچینی پھیلی ہے کہ انڈیا پہلگام حملے کے بعد پانی بند کر ملک کو بنجر بنا دے گا۔ انڈیا مغربی دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے، پہاڑوں میں سے نہریں کھودنے کے منصوبے زیرِ غور ہیں تاکہ پاکستان کے حصے کے پانی کو اپنے علاقوں کی طرف منتقل کر دیا جائے۔

حکومت بھی بارہا کہہ چکی ہے کہ یہ آبی دہشت گردی ہے اور سندھ طاس معاہدے کو چھیڑنا اقدامِ جنگ تصور کیا جائے گا۔

لیکن آبی ماہر دانش مصطفیٰ کا موقف ہے کہ یہ پریشانی بالکل بے جا ہے اور انڈیا کسی طور پانی بند نہیں کر سکتا۔ دانش مصطفیٰ کنگز کالج لندن میں کرٹیکل جیوگرافی کے پروفیسر ہیں اور گذشتہ 30 برس سے پانی اور سیلاب کی تحقیق سے وابستہ ہیں۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ جب سے انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی ہے، پاکستانی عوام اور حکومت دونوں میں اس پر سخت تشویش پائی جاتی ہے، لیکن آپ کا موقف ہے کہ یہ تشویش بے جا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال کے جواب میں دانش مصطفیٰ نے کہا کہ دریائے سندھ لداخ سے 15، 16 ہزار فٹ کی بلندی سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ ’اب بات یہ کہ 90 فیصد پانی جو آپ کو تربیلا میں ملتا ہے یا اٹک میں ملتا ہے، وہ پاکستان کے اندر سے آتا ہے۔ آپ کا بالتورو گلیشیئر ہو گیا۔ آپ کا سیاچن گلیشیئر ہو گیا۔ آپ کے جو اور کافی سارے گلیشیئرز ہیں، وہ سب کے سب اس میں حصہ ڈالتے ہیں۔ لداخ کے اندر تو بنیادی طور پر دریائے سندھ کا 10 فیصد پانی آتا ہے۔ اس سے آگے جا کے شیوک دریا ملتا ہے۔ گلگت دریا ملتا ہے۔ دریائے سوات ملتا ہے۔ دریائے کابل ملتا ہے۔۔۔ تو دریائے سندھ کا تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ علاقہ بےحد زلزلہ زدہ ہے۔ یہاں پر زلزلے بہت آتے ہیں۔ روزانہ میرے خیال سے کوئی پانچ چھ سو زلزلے آتے ہوں گے، جو آپ کو محسوس نہیں ہوتے کیونکہ یہ فعال پلیٹ باؤنڈری ہے، تو وہاں پر تو کوئی بھی ڈیم زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا۔ ہم نے خود دیکھا ہے اپنے نیلم جہلم کے ساتھ کہ اس کی سرنگ منہدم ہو گیا۔ اربوں ڈالر آپ کے لگ گئے لیکن چھٹی ہو گئی۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ان کے اندر سلٹ لوڈ بہت زیادہ ہے۔ سلٹ لوڈ اتنا زیادہ ہے کہ آپ کوئی بھی ڈیم بنائیں گے، اس کی چھٹی ہو جائے گی، تو اس کی کوئی معاشی تُک نہیں بنتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’دریائے جہلم کی طرف آتے ہیں۔۔۔ وہ واحد جگہ جہاں پر آپ ڈیم بنا سکتے ہیں یا کچھ سٹرکچر بنا سکتے ہیں، وہ اوڑی گورج کے اندر ہے۔ وہاں پر آپ نے کچھ 100 فٹ کا ڈیم بنایا تو آپ کی ساری وادی کشمیر پانی کے نیچے آ جائے گی، تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا!‘

دانش مصطفیٰ نے چناب کی صورتِ حال کے بارے میں بتایا: ’چناب کی طرف آ جائیے۔ چناب پہاڑوں میں سے ہوتا ہوا اکھنور کے پاس سے نکلتا ہے اور میرے خیال سے 20، 30 کلومیٹر کے اندر اندر وہ پاکستان کے اندر آ جاتا ہے۔ وہاں پر کون سی زمین ہے، جسے آپ سیراب کریں گے؟ کون سے مربعے پڑے ہوئے ہیں، جنہیں آپ سیراب کریں گے؟

’سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا، بیاس، ستلج اور راوی (انڈیا کو مل گئے) ان دریاؤں کے سامنے کروڑوں لوگ رہتے تھے، پنجاب اور ہریانہ کے اندر اور ہماچل پردیش کے اندر۔ اس پانی کا تو وہ استعمال کر سکتے تھے۔ تو وہ آپ نے سارے ان کے حوالے کر دیے تو وہ بات ہی ختم ہو گئی اور مغربی دریا جو ہے اس کے اندر سے ان کو جو آپ نے معاہدے کے تحت پانچ سات فیصد پانی استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ وہ پچھلے 65 سال میں تو دو تین فیصد نہیں استعمال کر سکے تو اگلے 65 سال میں دو تین فیصد اور کر لیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے حق میں تھا یا خلاف؟

سندھ طاس معاہدے کے بارے میں دانش مصطفیٰ نے بتایا، ’اس وقت بھی کسی نے اس منصوبہ کو نہیں کہا تھا کہ پاکستان کے لیے بہت اچھا ہے۔ آپ یہ ذہن میں رکھیے کہ 1953 یا 1954 میں پاکستان ون یونٹ بن گیا تھا۔ آپ نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں سارے صوبے ختم کر دیے تھے اورایک مغربی پاکستان صوبہ بنا تھا اور ایک مشرقی پاکستان صوبہ بنا تھا، تو آپ نے وہ صوبہ بنا کے سندھ کی آواز کو بند کر دیا۔

’تو 1956 یا 1957 میں آپ کے واشنگٹن میں مذاکراتی وفد نے کیبل بھیجے کہ یہ ورلڈ بینک والے ہمیں بڑے الٹے راستے پر لے کر جا رہے ہیں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنے مشرقی دریا ان کے حوالے کر دیں اور ہم مغربی دریاؤں پر آپ کی مدد کریں گے، تو اس وقت کی جو سیاسی قیادت تھی، اس نے بھی اس کے اوپر احتجاج کیا کہ جناب مہربانی کریں یہ کام آپ مت کریں، لیکن پھر 1958 میں مارشل لا لگ گیا، وہ سیاسی بات ہی ختم ہو گئی۔

’تو آپ کے ٹیکنوکریٹس نے، آپ کے سیاست دانوں نے، سب نے ایوب خان سے کہا کہ بھائی صاحب یہ کام مت کریں۔ یہ ہمارے لیے بڑا نقصان دہ ہے۔ ایوب خان نے کہا کہ جناب یہ میری ذاتی ذمہ داری ہے۔ یہ لکھا ہوا ہے انہوں نے اپنی ڈائری کے اندر کہ یہ میری ذاتی ذمہ داری ہے۔‘

پاکستان کو پانی کی قلت کا مسئلہ

پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے پانی کم ہے اور کم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں دانش مصطفیٰ نے کہا: ’ایک گالف کورس 22 ہزار گھروں کا پانی لیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کے پاس سوئمنگ پول بھی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ گنے بھی  اگا رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا چاول کا برآمد کنندہ ہے۔ اب چاول آپ تھرپارکر کے اندر سندھ کے اندر اگا رہے ہیں اور بیچ رہے ہیں ساری دنیا کو، تو پھر آپ کہتے ہیں کہ جی ہمارے پاس پانی نہیں ہے۔

’یہ کیا پراسرار بات ہے کہ اتنے ڈھیر سارے گالف کورس بھی ہیں آپ کے پاس۔ آپ کے پاس گنا بھی پیدا ہوتا ہے۔ آپ کے پاس چاول بھی پیدا ہوتا ہے۔ آپ باغات بھی لگاتے ہیں اور آپ کے پاس پانی بھی نہیں ہے۔‘

دانش مصطفیٰ کے نظریات پاکستان میں رائج عام خیالات سے مختلف ہیں۔ پاکستان میں انڈیا کے جارحانہ بیانات کے بعد پانی کے معاملے پر جو تشویش اور ہیجان پایا جاتا ہے، ان کے خیالات سے اس کے ازالے میں مدد مل سکتی ہے۔  

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان