پاکستان آج ایک ایسے بحران کے سنگین دہانے پر کھڑا ہے جو اس کی بنیادیں ہلا رہا ہے۔ یہ بحران بارود کے ڈھیر یا شدت پسندی کے حملے کی شکل میں نہیں آیا، بلکہ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے، آہستہ آہستہ اور پھر یکایک تباہ کن انداز میں نمودار ہوا ہے۔
یہ بحران موسمیاتی تبدیلی کا ہے، اور وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اسے نیشنل ایمرجنسی قرار دے کر ایک متحد اور سنجیدہ قومی عمل کا آغاز کرے۔
حالیہ صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ 2022 کے سیلاب نے ایک ایسی تباہی مچائی جو بیان سے باہر ہے۔ تین کروڑ سے زائد لوگ متاثر، سینکڑوں اموات، لاکھوں مکانات اور فصلیں تباہ، اور معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان۔
یہ کوئی ’قدرتی آفت‘ نہیں تھی، بلکہ موسمیاتی تبدیلی کی ہولناکی تھی۔
گلوبل وارمنگ نے سمندروں اور فضا کو گرم کیا، جس سے مون سون کی بارشیں شدید اور غیر معمولی ہو گئیں۔ پہاڑوں پر گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار بے قابو ہو چکی ہے، جس سے نہ صرف دریاؤں کے بہاؤ میں غیر یقینی پیدا ہوئی ہے بلکہ گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ (GLOF) کے واقعات بھی تباہی پھیلا رہے ہیں۔
سندھ کا شہر جیکب آباد دنیا کے گرم ترین مقامات میں شامل ہو چکا ہے، جہاں درجہ حرارت انسانی برداشت سے باہر جا پہنچتا ہے۔ دوسری طرف خشک سالی اور پانی کی شدید قلت زرعی پٹی کو بنجر بنا رہی ہے۔
لیکن پاکستان ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کے بند ناکافی اور غیر موثر ہیں۔ شہروں کی نکاسی آب کا نظام ناقص ہے۔ خشک سالی اور پانی کے انتظام کے لیے کوئی جامع حکمت عملی یا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نظر نہیں آتا۔
آفات کے بعد بحالی اور تعمیر نو کا عمل انتہائی سست اور غیر منظم ہے۔ صحت کے شعبے میں گرمی کی لہروں، پانی سے پھیلنے والی بیماریوں اور نئے امراض کے پھیلاؤ سے نمٹنے کی صلاحیت محدود ہے۔ وسائل کی کمی، منصوبہ بندی کی عدم موجودگی اور پالیسیوں پر عمل درآمد کی شدید کمی نے ملک کو موسمیاتی نقصانات کے سامنے انتہائی غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
ہماری معیشت، جو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی راہ پر ہے، بار بار آنے والی آفات سے کمزور ہو گی۔ کسان، جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، غیر یقینی موسموں اور پانی کی کمی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، جس سے خوراک کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
ایسے میں، صرف اعلانات، تقاریر، یا جزوی اقدامات کافی نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت فوری طور پر ’موسمیاتی ایمرجنسی‘ یعنی کلائمیٹ ایمرجنسی کا اعلان کرے۔ یہ محض الفاظ کا کھیل نہیں ہوگا، بلکہ ایک واضح پیغام ہوگا کہ ملک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے خوفناک اور فوری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی ناگزیر ہے۔ اس بحران کا سامنا کسی ایک حکومت، ادارے یا صوبے کے بس کی بات نہیں، پورے ملک نے مل کر اس کا سامنا کرنا ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں، صوبائی حکومتوں، فوج، عدلیہ، سول سوسائٹی، میڈیا اور بالخصوص عوام کو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ یہ ہماری اجتماعی جنگ ہے، جس میں سب کو اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہے۔
اس یکجہتی کا عملی مظہر ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کی شکل میں سامنے آنا چاہیے۔
موسمیاتی تبدیلی کو ہر سطح پر اولین ترجیح حاصل ہونی چاہیے، چاہے وہ قومی پالیسیاں ہوں، صوبائی منصوبہ بندی ہو یا بجٹ سازی کا عمل۔ توانائی، پانی، زراعت، صحت، انفراسٹرکچر اور تعلیم جیسے ہر شعبے میں موسمیاتی تخفی اور موافقت کے ٹھوس اقدامات لازمی ہوں، تاکہ ہر پالیسی اور منصوبہ مستقبل کے موسمیاتی دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھے۔
اس ترجیحی تبدیلی کا تقاضا ہو گا کہ محض کاغذی کارروائی نہیں بلکہ فوری اور جامع عمل ہو۔
قومی موسمیاتی ایمرجنسی ٹاسک فورس کو مؤثر وسائل اور مکمل اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ سیلاب کے انتظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا، پائیدار اور موسمیاتی لحاظ سے مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر کو تیز کرنا، پانی کے موثر انتظام اور ذخیرہ کرنے پر خصوصی توجہ دینا، جنگلات کی بحالی اور وسیع پیمانے پر ہنگامی بنیادوں پر شجرکاری مہم چلانا، اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کی رفتار کو بڑھانا جیسے اہم اقدامات فوری طور پر شروع کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تمام سرکاری کوششوں کی کامیابی کا دارومدار عوامی بیداری اور شرکت پر ہے۔ عوام کو موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات، ان سے پیدا ہونے والے خطرات اور ان سے بچاؤ یا کم از کم ان کے ساتھ رہنے کے طریقوں سے آگاہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تعلیمی اور آگاہی مہمات چلانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس ضمن میں مقامی این جی اوز کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ مقامی این جی اوز اور مقامی کمیونٹیز ہی ہیں جن کو اپنے اپنے علاقوں کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی ہیں اور اسی لیے مقامی آبادی کے تحفظ کے منصوبوں اور موافقت کی حکمت عملیوں میں براہ راست شامل کرنا نہ صرف ان کی ملکیت کا احساس بڑھائے گا بلکہ حل کو مقامی ضروریات کے مطابق بھی ڈھالے گا۔
اگرچہ یہ درست ہے کہ پاکستان عالمی کاربن اخراج میں بہت کم حصہ ڈالنے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، اسی لیے بین الاقوامی حمایت کی کاوشیں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
پاکستان اپنے اس حق کو ہر ممکن عالمی فورم پر مضبوطی کے ساتھ اٹھائے۔ ’گلوبل ساؤتھ‘ کے دیگر متاثرہ ممالک کے ساتھ مل کر ایک اجتماعی آواز میں ترقی یافتہ ممالک سے نہ صرف مالی معاونت کا مطالبہ کرے بلکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت سازی کے وعدوں پر عملی اقدامات کا بھی تقاضا کرے، تاکہ بین الاقوامی تعاون محض وعدوں تک محدود نہ رہے۔
ان تمام اقدامات کا ہم آہنگ اور فوری نفاذ ہی پاکستان کو موسمیاتی تباہی کے دہانے سے واپس لا سکتا ہے۔
ہم اپنے آپ کو ہی دھوکہ دیں گے اگر ہم اب بھی یہ سوچیں کہ ہمارے پاس وقت ہے یا یہ مسئلہ مستقبل کا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ہمارے دروازے پر کافی عرصہ پہلے ہی دستک دے چکی ہے۔ 2022 کا سیلاب، مسلسل گرمی کی لہریں، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلاؤ، اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اس بات کی واضح نشانیاں ہیں کہ ہماری موجودہ تیاریاں اور ردعمل ناکافی ہیں۔
اگر اب بھی ہم نے آنکھیں بند رکھیں، سیاسی اختلافات میں الجھے رہے، یا جزوی حل پر اکتفا کیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
پاکستان کی بقا، معاشی استحکام، عوام کی صحت اور خوشحالی، اور آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ موسمیاتی ہنگامی حالت کا اعلان کوئی اختیاری پالیسی نہیں، بلکہ ایک قومی فریضہ بن چکا ہے۔ یہ وقت متحد ہونے، اپنی ترجیحات کو ازسر نو طے کرنے، اور ایک سنجیدہ، مربوط اور دیرپا قومی عمل کا آغاز کرنے کا ہے۔
ہر گزرتے لمحے کی قیمت ناقابل تلافی تباہی کی صورت میں چکائی جا رہی ہے۔ اب وقت عمل کا ہے، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما نے موسمی تبدیلی کے حوالے سے کہا تھا ’ہم وہ پہلی نسل ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات محسوس کر رہی ہے اور آخری نسل ہے جو اس کے خلاف کچھ کر سکتی ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔