پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے بارے میں یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ یہ ایک نیا شہر ہے تاہم اس شہر کے قیام سے پہلے یہ علاقہ کس کی راجدہانی تھا؟ یہاں کس کا سکہ چلتا تھا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
ایک پوٹھوہاری ماہیا ہے: نکہ جیہا موڑہ اُتے پڑیاں گراں ماہیا آپے حاکم تے آپے کرن نیاں ماہیا
(ترجمہ: یہ جو چھوٹا سا گاؤں پڑیاں کے نام سے آباد ہے اس کے مالکان اتنے بااثر ہیں کہ وہ حاکم بھی ہیں اور منصف بھی)
اسی شکرپڑیاں میں صدر ایوب خان نے 24 مئی 1960 کواسلام آباد کے قیام کی منظوری دی تھی جس کے ساتھ ہی شکرپڑیاں میں آباد گکھڑ راجوں کی راجدہانی بھی تاریخ کے صفحات سے مٹ گئی۔
شکر پڑیاں کے راجوں کا یہ تاریخی خاندان اب بنی گالہ میں آباد ہے جن کے بزرگ راجہ طارق سلطان اپنے بیٹے کرنل (ر) کاشف سلطان کے ساتھ اس تاریخ کے امین ہیں جس کا ایک ایک ورق حریّت اورجرأت سےعبارت ہے۔
اسی خاندان کے ایک فرد کو سکھوں کے خلاف بغاوت کے جرم میں لٹکا کر اس کی زندہ کھال اتاری گئی تھی۔ اسی خاندان کے ایک جری فوجی کے پاس اینگلو افغان وار میں وکٹوریہ کراس کے برابر کا فوجی اعزاز ہے اور یہی وہ خانوادہ ہے جس کا ایک فرزند انگریز دور میں ڈپٹی کمشنر رہا اور دوسرا قائداعظم کی رحلت کے بعد کمشنر شپ سے مستعفی ہوا اورپھر صدر ایوب کے خلاف فاطمہ جناح کا سپاہی بن گیا۔
سکھوں کا باغی راجہ نوشہری خان کون تھا؟
احمد شاہ ابدالی کے حملوں کے نتیجے میں دہلی کا تخت کمزور ہوا اور پنجاب میں سکھوں کا راج آ گیا جس کا دائرہ پشاور تک پھیل گیا۔ راولپنڈی کے آخری گکھڑ سردار مقرب خان جب 1765 میں بھنگی مثل کے گوجر سنگھ بھنگی کے ہاتھوں شکست کھا کر اپنا اقتدار لٹا بیٹھے تو گکھڑ قبیلے میں غم و غصہ تو تھا مگر سکھوں کا خوف و ہراس اتنا تھا کہ کوئی بولتا نہیں تھا۔
ایسے میں شکر پڑیاں کے گکھڑ سردار راجہ نوشہری خان جو فارسی کے قادرالکلام شاعر بھی تھے نے سکھوں کے خلاف اعلان بغاوت بلند کر دیا۔ آٹھ سال تک انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ سکھوں کو کافی جانی نقصان پہنچایا۔
یہ غالباً 1820 کے لگ بھگ کی بات ہو گی جب راولپنڈی میں سکھوں کے کئی کوتوال راجہ نوشہری خان کے ہاتھوں مارے گئے جس پر رنجیت سنگھ نے ہری سنگھ نلوہ کو باغیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
راجہ طارق سلطان جب انڈیپنڈنٹ اردو کو یہ کہانی بیان کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ راجہ نوشہری خان نے کتنے کوتوال مارے ہوں گے؟ اس بارے میں مصدقہ معلومات تو دستیاب نہیں تاہم تین کے نام ہم بزرگوں سے سنتے آئے ہیں بلندہ سنگھ، ککر سنگھ اورکرپان سنگھ۔
نوشہری خان کا طریقہ ٔ واردات یہ تھا کہ وہ سحری کے وقت سکھ انتظامیہ کے افسروں پر دھاوا بولتے تھے کیونکہ سکھ رات کو رم پی کر سوتے تھے اور سحری کے وقت دم بخود ہوتے تھے۔ راجہ نوشہری خان شکرپڑیاں چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں اور ساتھیوں کے ہمراہ روپوش رہے اوراپنے ٹھکانے ہزارہ، چکوال، اٹک، راولپنڈی اور جہلم کے درمیان بدلتے رہتے تھے۔
ہری سنگھ نلوہ نے یہاں پہنچ کر چھ ماہ میں اپنے جاسوسوں کا جال بچھایا اور اعلان کیا کہ باغیوں کی اطلاع دینے والے کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ جس پر مارگلہ ہلز میں پیر سوہاوہ کے نزدیک ایک جگہ نیلاں بھوتو ہے جو بری امام کی چلہ گاہ کے طور پر بھی مشہور ہے، وہاں باغی رات کے اندھیرے میں پانی بھرنے کے لیے آتے تھے۔
وہاں کے ماشکی نے 40 اشرفیوں کے انعام کی لالچ میں سکھوں کو مخبری کر دی۔ ہری سنگھ نلوہ نے باغیوں کا گھیراؤ کر لیا کچھ باغی بھاگ نکلے۔ راجہ نوشہری کو معلوم تھا کہ اس کا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بھاگنا مشکل ہے اس نے بیوی کو قتل کر دیا کیونکہ سکھ اپنے مخالفین کی عورتوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔
راجہ نوشہری خان نے مقابلہ کیا لیکن سکھوں نے گھیر کر پکڑ لیا۔ ہری سنگھ نلوہ نے کہا کہ رنجیت سنگھ کی اطاعت کر لو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے مگر راجہ نوشہری خان نے کہا کہ مسلمان قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی بیعت نہیں کرتا۔ اس پر راجہ نوشہری خان کو نیلاں بھوتو میں ہی ایک درخت کے ساتھ لٹکا کر ان کی کھال اتاری گئی اور پھرانہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا جہاں چھ روز بعد وہ اسی حالت میں مر گئے۔
وہ درخت آج بھی موجود ہے جہاں مقامی لوگ چراغ جلاتے ہیں، رنگ برنگے رومال باندھتے ہیں اور وہاں اپنی منتیں مرادیں مانگنے کے لیے آتے ہیں۔
راجہ نوشہری کے ایک دوسرے ساتھی کو بنی چوک میں پنجرے میں بند کر دیا گیا ایک دن ایک سکھ فوجی اسے نیزے سے چھیڑ رہا تھا کہ اس نے وہی نیزہ چھین کر اسے مار کر قتل کر دیا۔
راجہ نوشہری خان کا بیٹا جسے سب سے بڑا فوجی اعزاز دیا گیا
راجہ نوشہری خان کو جس وقت مارا گیا تھا اس وقت ان کے دو چھوٹے بچے بھی تھے۔ راجہ علی بہادر خان اور راجہ شرف علی خان، جنہیں نوشہری خان نے کسی طرح فرار کروا دیا تھا۔
نتھیا گلی کے قریب ’پالان‘ نامی گاؤں کے ایک ہندو حلوائی نے نہ صرف ان بچوں کو پناہ دی بلکہ انہیں عربی اور فارسی کی تعلیم بھی دلوائی۔ یہ بچے ہندو حلوائی کا ہاتھ بٹاتے اس کے لیے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے۔
راجہ طارق سلطان نے بتایا کہ جب انگریزوں نے سکھوں سے اقتدار لیا تو راجہ علی بہادر خان جن کا قد چھ فٹ سے زیادہ تھا انہیں فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ ایک روز توپ کا ایک گولہ چل گیا جس سے ان کی قوت سماعت اتنی متاثر ہوئی کہ وہ سننے سے محروم ہو گئے۔ ان کے بدلے ان کے چھوٹے بھائی شرف علی مدد خان کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ ان کا نام راجہ علی مدد خان پڑ گیا کیونکہ وہ جو کام کرتے یا ’علی مدد‘ کا نعرہ لگاتے۔
1878-79 میں دوسری اینگلو افغان جنگ ہو رہی تھی۔ لنڈی کوتل میں جہاں علی مسجد ہےاس کے قریب واقع قلعے پر افغان فوجوں نے حملہ کر دیا تھا۔ جب انگریز فوج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تو کمانڈر نے پسپائی کا حکم دیا جس پر سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ راجہ علی مدد خان بھی بھاگنے والوں میں شامل تھے لیکن دسویں قدم پر وہ رک گئے۔
راجہ طارق سلطان بتانے لگے کہ یہ کہانی بھی ہم نے بزرگوں سے سن رکھی ہے جو برٹش آرمی کے ریکارڈ کا حصہ بھی ہے۔ راجہ علی مدد خان نے سوچا کہ گاؤں والوں کو جا کر کیا منہ دکھاؤں گا کہ راجہ نوشہری خان کا بیٹا بھاگ آیا ہے! یہ سوچتے ہی واپس پلٹا۔
دوسری جانب سے دشمن سپاہی شور مچاتے اور فائرنگ کرتے دوڑے چلے آ رہے تھے۔ راجہ علی مدد خان ’یا علی مدد‘ کا نعرہ لگاتے جاتے اور توپوں میں بارود کے ساتھ ریت اور بجری بھرتے جاتے۔ یہ ترکیب بھی انہیں خود ہی سوجھی تھی کہ توپ میں بارود کے ساتھ ساتھ ریت اور بجری بھی بھری جا سکتی ہے کیونکہ بارود تقریباً ختم ہو چکا تھا۔
پھر انہوں نے ایک ساتھ بارہ توپیں چلا دیں۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا، افغان سپاہیوں میں کسی کو گولے لگے کسی کو بجری کے دانے گولیاں بن کر لگے۔ وہ افغان فوجی جو فتح کے شادیانے بجاتے آ رہے تھے ان میں چیخ و پکار مچ گئی۔ انگریز فوج نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی واپس آ گئی۔
یہ دنیا کا شاید واحد معرکہ تھا جہاں اکیلے فوجی نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ ان کی بہادری سے متاثر ہو کر کمانڈر کی سفارش پر تاج نے انہیں اس وقت کا سب سے بڑا فوجی اعزاز’انڈین آرڈر آف میرٹ کلاس ون‘ دیا جو اس دور میں انڈین سپاہیوں کے لیے سب سے بڑا بہادری کا تمغہ تھا جسے آج کے نشانِ حیدر یا برطانیہ کے ’وکٹوریہ کراس‘ کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔
کرنل (ر) راجہ کاشف سلطان نے بتایا کہ انگریزوں کے فوجی ریکارڈ کے مطابق راجہ علی مدد خان نے1853 میں ایبٹ آباد میں قائم ہونے والی پشاور ماؤنٹین بیٹری، فرنٹیئر فورس میں بطور سائس (گھوڑے کا رکھوالا) شمولیت اختیار کی۔
اسی دوران قندھار کے لارڈ ارل رابرٹس، جو بعد میں فیلڈ مارشل بنے، نے بھی پشاور ماؤنٹین بیٹری میں بطور لیفٹیننٹ شمولیت اختیار کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کے درمیان گہری دوستی ہو گئی۔ جب علی مدد ریٹائر ہوئے تو اس کے بعد بھی رابرٹ اپنے پرانے دوست سے ملنے شکر پڑیاں آئے اور انہیں سونے کی گھڑی تحفے میں دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی مدد خان نے 1890 میں اعزازی کیپٹن کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی۔ آپ کو انڈین ڈِسٹنگوئشڈ سروس میڈل (IDSM) اور آرڈر آف برٹش انڈیا (OBI) بھی عطا ہوئے۔ آپ کو حکومتِ برطانیہ کی طرف سے خان بہادر کا خطاب دیا گیا اور راولپنڈی کے علاقے دھمیال میں تقریباً 800 ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک مکمل موضع ’چک علی مدد‘ کے نام سے انعام میں دیا گیا۔
راجہ شیرعلی خان جو لاہور کے ڈپٹی کمشنر بنے
انگریزوں نے راجہ علی مدد خان کی وجہ سے شکر پڑیاں میں سکول بنایا جہاں سے ان کے بیٹے راجہ شیر علی خان پڑھے اور چکوال میں اے ڈی ایم کے عہدے تک پہنچے بعد میں جب انہیں لاہور کا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا تو عہدے کا چارج لینے سے پہلے ہی انہیں فالج ہو گیا اور یوں وہ بستر مرگ سے جا لگے۔
راجہ طارق سلطان نے بتایا کہ ان کے بارے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ جاتلی میں قتل کے ایک ملزم کو راجہ شیر علی خان نے سزائے موت دے دی۔ ابھی سزا پرعملدرآمد نہیں ہوا تھا کہ راجہ صاحب شکار پر جاتلی گئے وہاں گاؤں والوں نے بتایا کہ ملزم بے قصور ہے اور اسے پولیس نے اصل مجرم کو بچانے کے لیے پھنسایا ہے۔
راجہ صاحب نے واپس آکر اپنا بیان حلفی لگا کر گورنر کو لکھ دیا کہ ان سے غلط فیصلہ ہوا ہے اور ملزم بے قصور ہے حالانکہ اس زمانے میں رواج تھا کہ اگر کوئی مجسٹریٹ غلط فیصلہ تسلیم کرے تو اسے برخاست کر دیا جاتا تھا مگر راجہ صاحب نے نوکری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گورنر کو اصل صورتحال لکھ دی۔
گورنر نے نہ صرف ملزم کو رہا کر دیا بلکہ راجہ صاحب کو ترقی دے کر لاہور کا ڈپٹی کمشنر بھی لگا دیا مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا اورانہیں فالج ہو گیا۔
راجہ اللہ داد خان جو ایم ایل اے بنے
راجہ اللہ داد خان بھی انڈین سول سروس کا حصہ بنے۔ قیامِ پاکستان کے وقت وہ ڈپٹی کمشنر تھے۔ ان کے بیٹے راجہ طارق سلطان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو انٹرویو میں بتایا کہ جب کشمیر کا جہاد شروع ہوا تو انہیں مجاہدین کی بھرتی کا ٹاسک دے کر میانوالی بھیجا گیا۔ انہوں نے میانوالی سے عبداللہ روکھڑی کی قیادت میں 980 مجاہدین پر مشتمل ایک دستہ روانہ کیا جن میں زیادہ تر جیل کے قیدی تھے، جنہیں یہ وعدہ کر کے بھیجا گیا کہ جو شہید ہو گیا اس کے لواحقین کو ایک مربع زمین الاٹ کی جائے گی۔ لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے اس وعدے کو پورا نہیں کیا جس پر راجہ اللہ داد خان مستعفی ہو کر گھر بیٹھ گئے۔
جب سردارعبد الرب نشتر وزیراعظم بنے تو انہوں نے نہ صرف اس وعدے کو نبھایا بلکہ وہ راجہ صاحب کو منانے شکر پڑیاں بھی آئے مگر راجہ صاحب نے کہا کہ اب وہ باقی زندگی اپنے گاؤں میں زمینداری کریں گے۔ حالنکہ اس وقت شکرپڑیاں زرخیز زمین نہیں تھی مگر راجہ صاحب کو انگریز دور میں ضلع اٹک میں حضرو کی بنجر زمین کو آباد کرنے کا تجربہ تھا۔
انہوں نے دس روپے ٹرک کے حساب سے ہزاروں ٹرک کا کوڑا اور گوبر راولپنڈی سے منگوا کر شکرپڑیاں میں اپنی بنجر زمینوں پر پھیلا دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ زمین جو بنجر تھی وہ ہری بھری ہو گئی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج زیرو پوائنٹ کے ساتھ اسلام آباد کا قبرستان ہے۔ جب راجہ صاحب اپنی زمینوں کے لیے ٹریکٹر لے کر آئے تو دوردراز سے لوگ ٹریکٹر دیکھنے کو آتے کہ راجہ صاحب ایک مشینی بیل لے آئے ہیں جو گھاس نہیں کھاتا۔
شکرپڑیاں کی زمین جب ریکارڈ پیداوار دینے لگی تو1953 میں امریکہ سے سینیٹرز کا ایک وفد راجہ صاحب کو ملنے شکرپڑیاں آیا جن کے ہمراہ نواب ممدوٹ، ممتاز دولتانہ، سردار شوکت حیات اورعبد الحمید دستی بھی تھے۔ جب انگریز سینیٹرز نے مکئی کی شاندار فصل دیکھی تو راجہ صاحب کو آفر کی کہ آپ امریکہ آ جائیں اور جتنی مرضی زمین لے لیں مگر راجہ صاحب نہیں مانے۔
راجہ طارق سلطان بتانے لگے کہ بعد ازاں وہی زمین جب اسلام آباد بنا تو سرکار نے 70 روپے کنال کے حساب سے ہم سے چھین لی۔ 1956 میں جب قحط آیا اور راولپنڈی میں گندم بہت مہنگی ہو گئی تو راجہ صاحب ساہیوال گئے جہاں ان کی اپنی زمین بھی تھی وہاں سے اپنی گندم کے ساتھ مارکیٹ سے مزید گندم خریدی اور ریلوے کی 40 بوگیاں بھر کر راولپنڈی لے آئے جہاں گندم کا ریٹ 28 روپے من پر پہنچا ہوا تھا مگر راجہ صاحب نے وہی گندم 13 روپے من کے حساب سے غریبوں کو تقسیم کر دی۔
جب صدر ایوب کے خلاف کوئی کھڑا ہونے کی جرأت نہیں کرتا تھا راجہ صاحب نہ صرف کھڑے ہوئے بلکہ فاطمہ جناح کی پورے راولپنڈی میں مہم بھی چلائی۔ بعد میں محترمہ فاطمہ جناح راجہ صاحب کے پنڈی والے گھر آئیں اور درخواست کی کہ راجہ صاحب ضمنی انتخابات میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے امیدوار بنیں جس پر راجہ صاحب نے الیکشن لڑا اور صدرایوب کے امیدوار کو ہرا کر ایم ایل اے بن گئے جس کا نتیجہ اسلام آباد میں ہماری زمینوں پر قبضے اور ہمیں بے دخل کر کے دیا گیا۔
راجہ طارق سلطان بھی صدر ایوب کے خلاف طلبا تحریک کے سرکردہ لیڈر تھے اور انہوں نے بھی ایوب کے خلاف جیلیں کاٹ رکھی ہیں۔ راجہ طارق سلطان کے ایک بھائی راجہ چنگیز سلطان بھی ہیں جو پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور پاکستان کے ممتاز مصور بھی ہیں۔
اسلام آباد جو طاقت کا محور ہے جسے دولت و حوس کے پجاری اپنی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں وہ آج یہ نہیں جانتے کہ جس خاندان کا یہاں دو صدیوں تک ڈنکا بجتا رہا وہ کون سا ہے اور کس حال میں ہے؟
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔