اسلام آباد کی 15 سالہ ظل ہما کے ’اغوا‘ کا کیس: معاملہ آخر ہے کیا؟

جہاں والدہ نے کچھ لوگوں پر اپنی بیٹی کے ریپ اور اغوا کا الزام عائد کیا، وہیں ظل ہما نے اپنی ایک ویڈیو میں والدہ کے بیان کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔

اسلام آباد کے علاقے غوری ٹاؤن کی رہائشی 15 سالہ ظل ہما (ویڈیو سکرین گریب/ سوشل میڈیا)

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے غوری ٹاؤن کی 15 سالہ ظل ہما کے مبینہ اغوا کا کیس کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر زیربحث ہے۔ تاہم لڑکی نے اب ایک ویڈیو میں اپنی مرضی سے شادی کرنے کا دعوی کیا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 19 جون کو خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم عورت مارچ اسلام آباد نے ایکس پر ایک پوسٹ میں ظل ہما کے ’اغوا‘ کی مذمت کی۔

پوسٹ میں کہا گیا کہ ’ظل ہما نامی لڑکی رواں برس 15 مئی سے لاپتہ ہے، جسے اسلام آباد سے معلوم ملزمان نے اغوا کیا۔

’پولیس کو علم ہے کہ لڑکی کہاں ہے، تاہم اسے ابھی تک ریسکیو نہیں کیا جا سکا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں پولیس اور ظل ہما کی والدہ سے گفتگو کی تاکہ معاملے سے متعلق جانا جا سکے۔

لڑکی کی والدہ نے 15 مئی کو کھنہ پولیس سٹیشن میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا کہ ان کی 15 سالہ بیٹی، جس کا پہلے ہی تھانہ کورال میں کیس چل رہا ہے، رواں سال تین اپریل کی صبح 10 بجے لاپتہ ہوئی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کے ساتھ چھ لڑکوں نے مبینہ طور پر زنا بالجبر کیا، جن کے نام ایف آئی آر میں شامل کیے گئے ہیں۔

خاتون کے مطابق ملزمان انہیں ان کی بیٹی کے اغوا کی دھمکیاں دیتے رہے تھے، جس پر انہوں نے تھانہ کھنہ میں درخواست دے رکھی تھی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ’15 مئی کی صبح میری بیٹی کو اغوا کر لیا گیا۔ اس گینگ کے ۔۔۔۔ لڑکے ضمانتوں پر رہا ہیں اور ہمیں دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ ہم لڑکی اٹھا کر لے جائیں گے۔۔۔

’میری بیٹی کو 15 مئی کی صبح آٹھ بجے اغوا کیا گیا، جو نابالغ ہے۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’یہ گینگ منشیات فروش بھی ہے جو بالغ لڑکیوں کو آئس کے نشے پر لگا کر ان کے ساتھ ریا کاری کرتا ہے۔‘ ایف آئی آر میں ظل ہما کو بازیاب کروانے کی درخواست دی گئی۔

تاہم معاملے نے اس وقت دوسرا موڑ لیا، جب ظل ہما کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں وہ کہتی نظر آئیں کہ انہوں نے 15 مئی، 2025 کو شہباز شاہد سے ’اپنی مرضی اور خوشی سے نکاح کیا، انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا، اپنی خوشی سے نکاح کیا ہے۔ کسی نے کوئی زور زبردستی نہیں کی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’میری والدہ نے جو بھی ویڈیو بنائی ہے وہ جعلی ہے، میرے سسر اور شوہر بے گناہ ہیں۔‘

ظل ہما ویڈیو میں درخواست کرتی ہیں کہ ’میرے شوہر اور سسر کو رہا کیا جائے کیونکہ وہ بے قصور ہیں۔‘

کھنہ تھانے کے ایس ایچ او عامر حیات نے بتایا کہ ’ظل ہما نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اسے اغوا نہیں کیا گیا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’نکاح خواں نے بیان دیا کہ نکاح اور اس کے گواہ جعلی تھے جبکہ مولوی اور جس لڑکے کے ساتھ ظل ہما کا نکاح ہوا، دونوں گرفتار کیے جانے کے بعد جیل بھیج دیے گئے۔‘

ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ ’لڑکا جعلی نکاح کرنے کی وجہ سے ہی جیل میں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ لڑکی کہاں رہ رہی ہے۔‘

کہوٹہ سے تعلق رکھنے والی ظل ہما چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ ان کی والدہ عرشیہ ارشد نے اپنی بیٹی کے ریپ اور پولیس کی جانب سے اس کا ڈیڑھ ماہ بعد میڈیکل کروانے کا الزام عائد کیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ظل ہما کی ویڈیو اس پر دباؤ ڈال کر بنوائی گئی۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مختلف دعوے اور انکشاف کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرشیہ نے کہا کہ ’ظل ہما کا ایک لڑکی کے ساتھ رابطہ تھا، جو چھوٹی بچیوں کو بہلا پھسلا کر ایک کیفے پہنچاتی اور انہیں نشے پر لگا دیتی۔

’یہ لڑکی بچیوں کا غلط استعمال کرتی اور ان کی نازیبا ویڈیوز بھی بناتی تھی۔‘

والدہ کے مطابق ’ظل ہما کی نشے کی عادت کا اس وقت معلوم ہوا جب وہ پوری رات نہیں سوتی تھی۔

’ہم نے دیکھا کہ یہ سو کیوں نہیں رہی۔ پھر معلوم ہوا کہ جو آئس کا نشہ کرتے ہیں وہ سوتے نہیں۔ رات کو اس کا چڑچڑا پن اور سب سے بدتمیزی پہلے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا ’چونکہ میں سیلون چلاتی ہوں لہٰذا جب ظل ہما یہاں آ رہی ہوتی تو وہ لڑکی اسے راستے سے لے جاتی یا کوئی لڑکا اسے لے جاتا۔

’اسے ہم کئی مرتبہ واپس بھی لے کر آئے۔ لڑکے کو بھی کہا کہ اگر اس میں دلچسپی ہے تو اپنی فیملی بھیجو، ہم رشتہ دے دیں گے۔‘

عرشیہ کے مطابق ’رواں برس تین اپریل کو ظل ہما نے کہا کہ وہ (سیلون سے) گھر جا رہی ہے۔ مجھے گھر آنے پر معلوم ہوا کہ وہ وہاں پہنچی ہی نہیں۔

’باہر چوکیدار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ اسی لڑکی کے ساتھ گئی ہے۔ جب ہمیں شروع میں اس لڑکی کے بارے میں معلوم ہوا تھا تو اس کے گھر چھاپہ بھی پڑوایا تھا، جس کے بعد وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔‘

ظل ہما کی والدہ نے بتایا کہ جب انہیں پتہ چلا کہ وہ کہاں ہے تو ’وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ وہاں نظارہ ہی اور تھا۔ وہاں تمام افراد خود بھی آئس کے نشے میں تھے اور اس شناسہ لڑکی کی حالت بھی عجیب تھی۔

’یہ دیکھنے پر ہم میاں بیوی نے ایک لڑکے کو تھپڑ مارا، اس کے جواب میں اس نے میرے شوہر کو چاقو مارا۔ اس کے بعد ہم نے 15 پر اطلاع کی۔

’پولیس کافی دیر سے وہاں پہنچی۔ اس دوران پتہ چلا کہ وہ لڑکی جس کیفے میں ظل ہما کو لے کر جاتی تھی، وہ انہی لڑکوں کا تھا، جنہوں نے ہماری بچی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔‘

عرشیہ کہتی ہیں کہ ان کی ’بیٹی کو چائلڈ پروٹیکشن سینٹر میں رکھا گیا ہے۔ دو روز قبل جب میں اس سے ملاقات کرنے گئی تو وہ تمام وقت یہ کہتی رہی کہ کیس ختم کر دیں، کیس چھوڑ دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین