عسکری اداروں کی نگاہِ کرم کی جانب نہیں دیکھ رہی: ریحام خان

انڈپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے انٹرویو میں ریحام خان نے کہا کہ اگر کسی سیاست دان کا نظریہ یا مفاد ڈیپ سٹیٹ کے مفادات سے ہم آہنگ نہ ہو، تو اس کا سیاست میں کامیاب ہونا مشکل ہو سکتا ہے۔

سابق صحافی اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے اپنی نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ عسکری اداروں کی ’نگاہِ کرم‘ کی جانب نہیں دیکھ رہی ہیں۔

ریحام خان نے رواں ہفتے ہی ’پاکستان رپبلک پارٹی‘  کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اسی سلسلے میں ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست رکھی، جس کے دوران انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کے مقاصد، ترجیحات اور ملک کے موجودہ سیاسی نظام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

اس سوال کے جواب میں کہ سیاست میں عسکری اداروں کے کردار کو وہ کس طرح دیکھتی ہیں؟ ریحام خان نے بظاہر سیاست دانوں کے کردار کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ اپنا کردار نہیں نبھائیں گے تو آپ خلا پیدا کرتے ہیں، دوسروں کو جواز دیتے ہیں۔ اگر میں دیانت داری سے بات کروں تو وہ (ادارے) بھی کٹھ پتلیاں استعمال کرتے کرتے تنگ آ گئے ہیں۔

’کیونکہ دیکھیں اگر آپ میں صلاحیت ہی نہیں ہو گی، جو صرف چاپلوسی ہی کرسکے گا وہ آپ دو دن برداشت کریں گے لیکن جب تیسرے دن آپ کے کاروبار سے ان کو نقصان ہو گا، وہ منہ کھولے گا، غلط بات کرے گا یا جو چاپلوس بندہ ہوتا ہے، وہ سب کی چاپلوسی کرتا ہے۔ اس پر آپ انحصار نہیں کرسکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ادارے بھی کچھ اکتائے ہوئے ہیں۔‘

بقول ریحام خان: ’میرامسئلہ عسکری اداروں کی طاقت یا ان کی مدد سے نہیں، میں جانتی ہوں کہ ملک کی اصل طاقت عوام میں ہے۔‘

ریحام خان کا مزید کہنا تھا کہ ’عسکری اداروں کا بنیادی مقصد قومی دفاع اور سرحد کی حفاظت ہے اور ان کے مفادات ملک کے داخلی اور خارجی استحکام کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ قومی مفادات کو ترجیح دیں اور اگر کسی سیاست دان کا نظریہ یا مفاد ڈیپ سٹیٹ کے مفادات سے ہم آہنگ نہ ہو، تو اس کا سیاست میں کامیاب ہونا مشکل ہو سکتا ہے۔ (سیاست میں) نئے آنے والوں اور ڈیپ سٹیٹ کے مفادات ایک سمت میں ہونے چاہییں۔

’ہر ملک کا دفاع اس کے وقار کا حصہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ یکساں اور متوازن تعلقات قائم کیے جائیں۔ ہر رشتے میں برابری کی بنیاد پر ڈپلومیسی ہونی چاہیے تاکہ مختلف قومی اور بین الاقوامی مفادات کا بہتر تحفظ کیا جا سکے۔‘

ریحام خان کا کہنا تھا کہ وہ اداروں کی طرف دیکھ ہی نہیں رہیں۔ ’میری جو اصل سمت ہے، وہی مختلف ہے۔ مجھے پتہ ہے، میری طاقت لوگوں سے آئے گی۔‘

ریحام خان کا میڈیا میں کیریئر 2006 میں برطانیہ لیگل ٹی وی اور 2007 میں سن شائن ٹی وی سے ہوا، جس کے بعد وہ 2008 میں بی بی سی کے ساتھ موسم کا حال بتانے والی میزبان کے طور پر منسلک ہوئیں۔

2013 میں پاکستان واپس آ کر انہوں نے نیوز ون، آج ٹی اور پی ٹی وی کے بعد ڈان نیوز پر ’ریحام خان شو‘ کے نام سے میزبانی شروع کی۔

2014 میں انہوں نے عمران خان سے شادی کی لیکن 10 ماہ بعد ہی ان میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے 2018 میں ایک خودنوشت شائع کی، جس میں عمران خان کے بارے میں کئی متنازع دعوے شامل تھے۔

’صفائی مہم کے لیے نہیں آئی‘

انٹرویو کے دوران ریحام خان نے اصرار کیا کہ وہ سیاست میں ایک بار پھر ’90 دن کی صفائی کی مہم‘ سمجھ کر نہیں آئی ہیں، اس میں وقت لگے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعاون کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کی شرط یہ ہو گی کہ اتحاد عوامی مسائل کے حل کے لیے ہو، نہ کہ ذاتی مفاد کے لیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی میں 16 جولائی کو ریحام خان نے ایک اخباری کانفرنس میں اپنی نئی سیاسی جماعت ’پاکستان رپبلک پارٹی‘ کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔ اس طرح وہ پاکستان کی تاریخ میں چند گنی چنی خواتین میں شامل ہو گئی ہیں جو کسی سیاسی جماعت کی سربراہ ہیں۔

ریحام خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کا مقصد اشرافیہ کے خلاف کھڑے ہو کر عام شہریوں کی نمائندگی کرنا ہے، خاص طور پر ان مسائل کو سامنے لانا، جو عوام کی روزمرہ زندگی میں ہیں، جیسے پانی کی کمی، تعلیم کی ناقص حالت اور صحت کے نظام کی کمزوری۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی نظام عوام کی حقیقی نمائندگی میں ناکام ہو چکا ہے اور یہ صرف ایک اشرافیہ کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔

ریحام خان نے سیاسی نمائندگی کے نظام پر گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی حقیقی نمائندگی ایوانوں میں نہیں ہو پا رہی۔‘ ان کے بقول موجودہ سیاسی نظام عوام کے مسائل سے بہت دور ہے اور یہ ایک اشرافیہ اور ایلیٹ کلچر بن چکا ہے، جس میں نہ صرف سیاسی حلقے بلکہ بعض ادارے بھی شامل ہیں، جو زمینی حقائق اور حلقہ وار سیاست سے کٹ چکے ہیں۔

ریحام نے واضح کیا کہ عوام جن حالات سے روزمرہ زندگی میں گزر رہے ہیں، جیسے کہ پانی کی فراہمی، تعلیم کے ناقص معیار اور ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی، ان مسائل کی ترجمانی ایوانوں میں موجود نمائندے نہیں کر پاتے۔ ’یہ نظام عام عوام کے تجربات سے میل نہیں کھاتا اور اس کی وجہ سے عوام کی حقیقی نمائندگی ممکن نہیں۔‘

اسی کے ساتھ انہوں نے خواتین کی سیاسی شرکت کے حوالے سے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’سیاست خواتین کے لیے غیر محفوظ ہے اور اگر سیاست میں والد یا بھائی کا سہارا نہ ہو تو خواتین کے لیے اس شعبے میں آگے بڑھنا مشکل ہے۔‘ ان کا خیال ہے کہ ’اگر ایسا رہا تو آنے والی نسل کی خواتین سیاست میں جگہ بنانے سے خوفزدہ ہوں گی۔‘

جماعت کی اولین ترجیحات کیا؟

ریحام خان نے اپنی جماعت کی ترجیحات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک مکمل منشور تیار نہیں ہوا، تاہم ابتدائی طور پر انہوں نے دو اہم نکات کو ترجیح دی ہے۔ ’پہلی ترجیح روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے، خاص طور پر خواتین کی مالی خودمختاری کو یقینی بنانا، جس کا مرکز اقتصادی ترقی ہے۔ دوسری ترجیح مڈل کلاس طبقے کی بحالی ہے جو ان کے مطابق ختم ہو چکا ہے۔‘

انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز میں اضافے پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ تمام لوگ امداد پر منحصر رہیں، بلکہ ملک کو قرض کے بوجھ سے آزاد ہونا چاہیے۔‘

اپنے منشور میں انہوں نے یہ نکتہ شامل کرتے ہوئے کہا کہ ’جو شخص اپنے حلقے میں مقیم نہیں ہوتا اسے نمائندگی کا حق نہیں دیا جانا چاہیے تاکہ حقیقی نمائندگی ممکن ہو۔‘ تاہم ان کی جماعت نے اسلام آباد، کراچی اور جلد ہی لاہور میں ورکنگ گروپس قائم کیے ہیں جو پارٹی کا ڈھانچہ مرتب کریں گے اور ان گروپس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہو گی۔

انہوں نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ’میرے نزدیک موجودہ نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہر کام کو اس کے متعلقہ دائرہ کار میں رکھا جائے۔ مثال کے طور پر، وزیر داخلہ کا کام سڑکیں بنانا نہیں ہے۔ ہمارے ماضی میں کچھ لوگ آئے جنہوں نے پاکستان کو ’فرسٹ‘ کہا، مگر میرے خیال میں ’پاکستانی فرسٹ‘ ہونا چاہیے۔‘

حکومت یا سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد؟

اس سوال کے جواب میں ریحام خان کا کہنا تھا کہ ’جب بات حکومت یا دیگر برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعاون کی ہو، تو مجھے یہ کہنا ہے کہ تعاون کا وہی مطلب ہونا چاہیے جو حقیقت میں اس کا تقاضا ہے۔ کراچی جیسا شہر، جو ایک پورٹ سٹی ہے، اس کے تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی پارٹیاں مل کر کام کریں۔‘

بقول ریحام خان: ’کراچی کا مزاج بالکل لندن جیسا ہے، جہاں ایک میئر کو حمایت ملتی ہے اور پورا نظام اسی ماڈل پر چلتا ہے۔

’اگر اتحاد اس بنیاد پر ہو کہ ’میرے بیٹے کو بھی سیٹ ملے‘ یا ’میں کسی کا حلقہ لے لوں‘ تو یہ بالکل غلط ہے۔ لیکن اگر اتحاد اس بنیاد پر ہو کہ ہمیں اختیار دیا جائے کہ ہم ایک گٹر کھول سکیں یا کسی ایک قصبے میں پانی فراہم کر سکیں، تو یہ سمجھ آتا ہے اور اس بنیاد پر اتحاد کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اب بہت سے لوگ ریٹائرمنٹ لے لیں کیونکہ وہ ذہنی طور پر بھی ریٹائرڈ ہیں۔ میں کسی کے خلاف ذاتی طور پر کچھ نہیں کہہ رہی، لیکن حالیہ جنگ کے دوران کئی لوگوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو درست نہیں۔

’میں دیکھ رہی ہوں کہ لوگ اپنے رولز سے ہٹ کر اپنی مرضی سے عمل کر رہے ہیں، اپنے اپنے حلقے میں اپنے لوگ چلا رہے ہیں اور منشور کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ میں نے پاکستان رپبلک پارٹی کا اعلان اس لیے کیا ہے تاکہ سب افواہوں کو ختم کیا جا سکے کہ میں نے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ میں کسی کے مشورے پر نہیں بلکہ صرف عوام کے لیے پارٹی بنا رہی ہوں۔‘

انتخابات، تحریک انصاف اور سیاسی اتحاد پر رائے

بانی پاکستان رپبلک پارٹی ریحام خان کا کہنا تھا کہ ’ہم ابھی انتخابات سے بہت دور ہیں، میری دلچسپی لوکل باڈیز کی سیاست کو مضبوط کرنے میں ہے، خاص طور پر طلبہ سیاست کو صحیح معنوں میں بحال کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں کسی مخصوص حلقے سے انتخاب لڑوں گی، لیکن یہ ضرور سوچا ہے کہ کن نوجوانوں کو متعارف کروانا ہے۔

’اگر لوگ کہتے ہیں کہ آپ کامیاب نہیں ہو سکتیں، تو یاد رہے کہ باقی لوگوں کو 27 سال لگ گئے ہیں۔ اگر آج آغاز نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟ نئی نسل موروثیت کی قید میں نہیں ہونی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیوں اور منشور کے مقابلے میں ہماری جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ جو عملی کارکردگی میں نے دیکھی، وہ ان کے 2013 کے پہلے منشور کی روشنی میں تھی۔ بہت سے جاننے والے، خاص طور پر خواتین، جو پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ منسلک تھیں، اب دیگر جماعتوں کی طرف چلی گئی ہیں جو وہاں بھی نظر نہیں آتیں۔‘

ریحام خان نے کہا کہ ’عملی میدان میں پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی کا سب سے بڑا نقصان انہیں خود ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے متوسط طبقے یعنی کمزور طبقے پر توجہ نہیں دی اور اس طبقے کو مایوس کیا ہے۔ یہ مشکلات ابھی حال ہی میں سامنے آئیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کئی سالوں تک چلے، اب وہ پارٹی میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔‘

تحریک انصاف سے سیاسی اتحاد؟

اس سوال کے جواب میں ریحام خان نے کہا کہ ’اگر مستقبل میں تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد کی ضرورت پڑی، تو میرا موقف یہ ہے کہ جو تحریک انصاف آج ہے، وہ اصل تحریک انصاف نہیں رہی۔ پارٹی تحلیل یعنی منتشر ہو گئی ہے۔

’2013 میں لوگ گمراہ ہو کر تحریک انصاف کو ووٹ دیے، مگر وہاں بھی موروثیت نے جنم لیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ جو تحریک انصاف آج ہے، اس کا کوئی مستقبل ہے۔ وہ اس ایم کیو ایم کی طرح ہو گی جو پہچانی نہیں جائے گی۔‘

پاکستان میں مبصرین کے خیال میں سیاسی جماعت بنانا تو آسان ہے لیکن اسے مقبول بنانا اور چلانا انتہائی مشکل کام ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاست اور صحافت کو قریب سے دیکھنے والی ریحام خان کیا اپنے مقاصد حاصل کر پاتی ہیں یا نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست