بلوچستان کے ضلع قلات میں بدھ کو کراچی کے معروف ماجد صابری قوال گروپ کے اراکین کی بس پر مسلح افراد کی فائرنگ کے باعث جان سے جانے والے تین قوالوں کی میتوں کو جمعرات کی صبح کراچی لایا گیا۔
میتیں حکومت بلوچستان کی جانب سے دیے گئے ہیلی کاپٹر میں کراچی لائی گئیں۔
جمعرات کی دوپہر بلوچستان کے شہر قلات کے قریب کراچی سے کوئٹہ جانے والی بس پر کھات لگا کر بیٹھے مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی۔
فائرنگ سے بس میں سوار معروف قوال احمد صابری، ان کا بیٹا رضا صابری اور ان کا ساتھی گٹارسٹ آصف جان سے گئے، جب کہ 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔
زخمیوں کو علاج کے لیے پہلے قلات ہسپتال اور بعد میں کوئٹہ منتقل کردیا گیا تھا۔
ماجد صابری قوال گروپ کے ساؤنڈ انجنیئر شہزاد احمد بھی متاثرہ بس میں سوار تھے۔
شہزاد احمد کے مطابق جمعرات کو کوئٹہ میں ایک تقریب میں قوالی پیش کرنے لیے گروپ کے 21 افراد بس میں سوار ہوکر کراچی سے کوئٹہ جارہے، جب قلات کے قریب بس پر فائرنگ ہوئی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شہزاد احمد نے کہا کہ گروپ کے سربراہ ماجد صابری بس میں سوار نہیں تھے، انہیں جمعرات کی صبح بذریعہ فلائیٹ کوئٹہ آنا تھا۔
شہزاد احمد کے مطابق: ’ہم صبح کراچی سے نکلے اور تقریباً سوا ایک بجے خضدار میں بس کو روک کر دوپہر کا کھانا کھایا۔ اس دوران ہمیں شک ہوا کہ کوئی ہماری بس کا پیچھا کر رہا ہے۔ مگر ہم سب نے سوچا کہ کون ہمارا پیچھا کرے گا۔ اس لیے ہم نے نظرانداز کردیا۔
’بس جیسے ہی قلات پہنچی، سات مسلح افراد دو گاڑیوں کو روڈ کے درمیاں کھڑی کر کے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں پہلا فائر ڈرائیور پر کیا تو بس روڈ سے اتر گئی۔ اس کے بعد انہوں نے بس پر فائرنگ شروع کردی۔ کئی منٹ تک فائرنگ کرنے کے بعد حملہ آور چلے گئے۔ 10 سے 15 منٹ میں ریسکیو والے آگئے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بس میں سوار ماجد صابری قوال گروپ کے اراکین کی اکثریت کراچی کی پی آئی بی کالونی کے مارٹن روڈ پر ایک ہی محلے میں ساتھ رہتے ہیں۔
قوال گروپ کے سربراہ ماجد صابری قوال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انہیں آج جمعرات کی شام کو کوئٹہ میں قوالی کی تقریب شرکت کرنا تھی۔ مگر گروپ اراکین ایک دن پہلے روانہ ہوئے تو یہ سانحہ پیش آیا۔
ماجد صابری قوال کے مطابق: ’میرے گروپ کا تمام سامان موسیقی اور ساؤنڈ سسٹم بھی فائرنگ سے تباہ ہو گیا۔ میرے تین بھائی تاحال کوئٹہ میں ہیں۔ جب تک وہ کراچی نہیں آجاتے، ہم میتیوں کی تدفین نہیں کریں گے۔‘
جان سے جانے والے احمد صابری کے بچپن کے دوست شکیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احمد صابری سے ان کی آخری ملاقات گذشتہ منگل کو ہوئی تھی اور انہوں نے شکیل کو بتایا کہ وہ قوالی کی تقریب کے لیے کوئٹہ جا رہے ہیں۔
شکیل احمد کے مطابق: ’انہوں نے مجھے کہا تھا کہ وہ میرے لیے کوئٹہ سے کوئی خاص تحفہ لائیں گے۔ کیوں کہ وہ جب بھی جاتے واپسی پر میرے کوئی تحفہ ضرور لاتے تھے۔
’احمد کولڈ ڈرنک بہت پیتے تھے تو میں ان کی عرفیت احمد بوتل رکھی تھی اس لیے لوگ اسے احمد بوتل کے نام سے پکارتے تھے۔ ان کی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔‘