ڈیم کی مدد سے سیلابوں کو نہیں روکا جا سکتا: آبی ماہر

آبی ماہر کا کہنا تھا کہ ’دریائے چناب پر انڈیا نے آٹھ ڈیم تعمیر کر رکھے ہیں، اگر ڈیم واقعی سیلاب روک سکتے تو دریائے چناب میں سیلابی کیفیت پیش نہ آتی۔‘

آبی ماہر وقار شیرازی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ’پاکستان میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر ڈیم موجود ہوتے تو سیلاب کو روکا جا سکتا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ کافی حد تک غلط ہے۔‘

وقار شیرازی کئی سرکاری اور بین الاقوامی اداروں کے لیے تحقیق، پلاننگ، ڈیویلپمنٹ اور مانیٹرنگ کے شعبوں سے وابستہ رہ چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’سیلاب میں جو مقدارِ پانی دریا کے بیسن میں آتی ہے، اسے ایک نہیں بلکہ کئی ڈیموں میں بھی مکمل طور پر ذخیرہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر دریائے چناب پر انڈیا نے آٹھ ڈیم تعمیر کر رکھے ہیں، جن میں سے پانچ اس وقت فعال ہیں۔ اگر ڈیم واقعی سیلاب روک سکتے تو دریائے چناب میں سیلابی کیفیت پیش نہ آتی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کے ڈیم ’رن آف دی ریور‘ ہیں جن کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت زیادہ نہیں، لیکن اس کے باوجود وہاں سے جب آٹھ لاکھ کیوسک پانی چھوڑا گیا تو پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

’ماضی میں اس معاہدے کے تحت انڈیا لمحہ بہ لمحہ ہمیں پانی چھوڑنے کی تفصیلات دینے کا پابند تھا، مگر اب انڈیا وہ معلومات سفارتی ذرائع سے صرف ایک جملے کی صورت میں دیتا ہے کہ ’پانی چھوڑ دیا گیا ہے‘ تفصیلات نہیں دیتے، اس رویے سے ہماری مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وقار شیرازی نے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے پاس موسم کی پیشن گوئیوں کے ذریعے بارشوں کی صورت حال کی معلومات موجود ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان مثبت اور بروقت رابطہ ہوتا تو انڈیا اپنے ڈیموں کا پانی پہلے ہی خارج کرنا شروع کر دیتا، جس سے پاکستان میں سیلاب کی شدت کم کی جا سکتی تھی۔  لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اس پر میں ان کی نیت پر بات نہیں کرنا چاہتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ وقت پر اقدامات نہ ہونے سے صورت حال بگڑ گئی۔

’کچھ انڈین سکھ تنظیموں نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کو ڈبونے کے لیے انڈین پنجاب کے کچھ حصوں کو جان بوجھ کر قربان کیا گیا۔‘

سندھ کی عوام اور سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے دریائے سندھ کے زیریں حصوں تک پانی کی رسائی متاثر ہوگی اور ان کی زراعت کو نقصان ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے کچھ علاقے زیرِ آب آ جائیں گے اور وہاں کی زرعی زمینیں متاثر ہوں گی یہ حقیقت ہے کہ ڈیم بنانے سے زمینیں متاثر ہوتی ہیں اور پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر اس پر اختلاف رائے موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہر سال دریاؤں کے سیلاب کے ساتھ زرخیز مٹی (سلٹ) کھیتوں تک پہنچتی ہے جو زراعت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگر ڈیم بنیں گے تو پانی تو نیچے جائے گا مگر مٹی پیچھے رک جائے گی۔ یہی مٹی سمندر تک جا کر قدرتی کٹاؤ کو بھی روکتی ہے۔ جب یہ مٹی سمندر تک نہیں پہنچتی تو بحیرہ عرب کا کھارا پانی اندر کی طرف آتا ہے، جیسا کہ ٹھٹھہ اور کھارو چن کے علاقوں میں دیکھنے میں آیا۔ اس سے مینگرووز کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں اور ساحلی زمینیں تباہ ہو رہی ہیں۔‘

سیلابوں کے مسئلے کا حل کیا ہے، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’سیلاب کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں، ڈیم صرف شدت کم کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک جامع حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ بڑے اور درمیانے درجے کے ڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ پانی ذخیرہ اور ریگولیٹ کیا جا سکے۔

’دریاؤں کے فلڈ پلینز خالی رکھے جائیں اور وہاں تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔

ارلی وارننگ سسٹم کو بہتر بنایا جائے تاکہ ایک ڈیم کا اخراج دوسرے ڈیم سے مربوط ہو۔

’پانی کو ریچارج کرنے اور نچلے علاقوں تک پہنچانے کے منصوبے بنائے جائیں۔
یاد رہے، اس مسئلے کا حل صرف ایک ڈیم نہیں بلکہ ایک مکمل مربوط نظام ہے، جس میں تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق