پاکستان میں حالیہ بارشوں اور انڈیا کے ڈیموں سے پانی چھوڑے جانے کے بعد دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چار ستمبر کو جب سیلابی ریلا گڈو بیراج سے گزرے گا تو ’سپر فلڈ‘ کی صورت حال پیدا نہیں ہوگی۔
اس وقت گڈو بیراج میں پانی کی آمد تقریباً تین لاکھ 60 ہزار کیوسک جبکہ سکھر بیراج پر تین لاکھ کیوسک ہے، جو بالترتیب درمیانے اور نچلے درجے کے سیلاب کے زمرے میں آتے ہیں۔
محکمہ آبپاشی سندھ کے ماہر عبدالعزیز کے مطابق پنجاب کے بالائی علاقوں سے آنے والا سیلابی ریلا جب تک سندھ پہنچا تو اس کی شدت کافی حد تک کم ہو گئی۔
’چناب میں جو ریلا پہلے 10 لاکھ کیوسک تھا وہ ہیڈ تریموں پر پانچ لاکھ 20 ہزار کیوسک رہ گیا اور توقع ہے کہ جب یہ سکھر یا گڈو بیراج تک پہنچے گا تو مزید کم ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ سندھ کے دریاؤں کی گنجائش زیادہ ہے۔ ’گڈو بیراج 12 لاکھ اور سکھر بیراج نو لاکھ 60 ہزار کیوسک پانی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2010 میں بھی سکھر بیراج سے بارہ لاکھ کیوسک پانی گزر چکا ہے۔‘
بارشیں اور انڈیا کی جانب سے پانی کا اخراج
ماہرین کے مطابق حالیہ صورت حال صرف غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے نہیں بنی بلکہ انڈیا کی جانب سے اچانک پانی چھوڑنے سے بھی کئی دریا لبریز ہو گئے۔ ستلج، راوی اور چناب سمیت مختلف دریاؤں میں اچانک پانی آنے کے باعث بالائی علاقوں میں فلش فلڈز پیدا ہوئے جنہوں نے پنجاب میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔
پنجاب اور سندھ میں فرق
پنجاب کے بیشتر دریاؤں کی گنجائش کم ہے اور وہاں کچے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر آبادیاں قائم ہیں جس کے باعث نقصان زیادہ ہوا۔ اس کے برعکس سندھ میں دریائے سندھ گہرائی میں بہتا ہے اور زیادہ تر علاقے کچے تک محدود ہیں۔ اگر درمیانے یا اونچے درجے کا سیلاب بھی آئے تو زیادہ سے زیادہ سات سو دیہات متاثر ہو سکتے ہیں۔
کچے کے مکینوں کا مؤقف
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچے کے علاقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ سیلاب ان کے لیے نقصان کے بجائے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرنے والے چند افراد کا کہنا ہے کہ پانی اگرچہ کچھ زمینوں کو ڈھانپ لے گا مگر اس سے ہماری فصلیں بہتر ہو جائیں گی اور بڑے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے۔ البتہ چند دیہات کے لوگ احتیاطاً نقل مکانی ضرور کریں گے۔
انتظامی اقدامات
ضلعی اور بلدیاتی نمائندوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ممکنہ متاثرہ آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
میئر سکھر ارسلان اسلام شیخ کے مطابق: ’کچے کے علاقوں میں ریسکیو ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں، 70 سے زائد کشتیاں موجود ہیں اور پولیس و رینجرز کو بھی ریلیف کیمپس کی سکیورٹی پر مامور کیا گیا ہے۔‘
چیئرمین ضلع کونسل سید کمیل حیدر شاہ نے کہا کہ بندوں پر کیمپ قائم کرنے کے بجائے متاثرین کو پکی عمارتوں میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں بہتر سہولت مل سکے۔
’نیوی کی خصوصی ٹیم بھی سکھر پہنچ چکی ہے، جس میں 40 سے زائد تربیت یافتہ اہلکار شامل ہیں۔‘
فلش فلڈ کے برعکس مرحلہ وار پانی
ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں وہ صورت حال نہیں ہو گی جو پنجاب کے کئی حصوں میں سامنے آئی۔
بالائی علاقوں میں زیادہ تر نقصانات فلش فلڈز یعنی اچانک آنے والے ریلوں کی وجہ سے ہوئے، جبکہ سندھ میں پانی مرحلہ وار داخل ہو رہا ہے اور دباؤ برداشت کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
حکومتی مؤقف
ترجمان حکومت سندھ ارسلان احمد شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حکومت لمحہ بہ لمحہ صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
’وزیراعلیٰ سندھ نے بھی حکام کو واضح ہدایت دی ہے کہ کسی قسم کی لاپرواہی نہ برتی جائے۔ اگر قدرت نے ہمیں پہلے سے تدابیر اختیار کرنے کا موقع دیا ہے تو اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جا سکے۔‘