انڈیا کی ایک رکنِ پارلیمان کو چند مسلمان خواتین کی جانب سے ایک تاریخی مقام پر نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ کو گائے کے گوبر اور پیشاب سے ’پاک‘ کرنے کے عمل پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
ریاست مہاراشٹر کے شہر پونے میں واقع تاریخی شنیوار واڑہ قلعے میں مسلمان خواتین کی جانب سے نماز ادا کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر ہونے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والی مدھا کلکرنی کچھ ہندو کارکنوں کے ہمراہ قلعے تک مارچ کرتی ہوئی گئیں۔
رکنِ پارلیمان کو گائے کے گوبر اور پیشاب سے اس جگہ کو ’صاف‘ کرتے دیکھا گیا (گائے کو ہندو مذہب میں مقدس جانور سمجھا جاتا ہے) تاکہ مسلمان خواتین کی نماز کے بعد ’پاکیزگی‘ کا عمل انجام دیا جا سکے۔ اپنے احتجاج کے دوران انہوں نے ایک ہندو دیوی کے نام کی دعا بھی پڑھی۔
انہوں نے اس موقعے پر کہا: ’یہ جگہ صرف ایک تاریخی یادگار نہیں بلکہ مراٹھا فخر کی علامت ہے۔ کسی کو بھی ایسے کام نہیں کرنے چاہییں جو ہندو برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔‘
1736 میں تعمیر کیا گیا یہ قلعہ پیشوا اقتدار کا مرکز سمجھا جاتا تھا، جو مراٹھا قوم کے درمیان وزیراعظم کے عہدے کے برابر تھا۔ یہ قلعہ 1828 میں آتشزدگی سے تباہ ہو گیا تھا۔
انڈیا کی تیسری سب سے بڑی ریاست مہاراشٹر، جہاں اس کا مالیاتی دارالحکومت ممبئی بھی واقع ہے، مذہبی بنیادوں پر سیاسی کشمکش کا مرکز رہا ہے۔ اس وقت اس ریاست میں مودی کی بی جے پی اور مقامی رہنما ایکناتھ شندے کے درمیان قائم ہندو اکثریتی اتحاد کی حکومت ہے۔
پونے پولیس نے ویڈیو میں نظر آنے والی تین نامعلوم خواتین کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ درج کیا ہے، جن پر محفوظ یادگاروں سے متعلق پابندیوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔
جب مدھا کلکرنی سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کیوں سمجھا کہ دوسرے مذہب کی خواتین کے نماز پڑھنے سے وہ جگہ ’ناپاک‘ ہو گئی، تو انہوں نے انڈین ایکسپریس سے گفتگو میں کہا: شنیوار واڑہ آثارِ قدیمہ کے محکمے کے زیرِ تحفظ ایک تاریخی یادگار ہے۔ یہ چھترپتی شواجی مہاراج کے قائم کردہ ہندوی سوراج (یعنی انڈین عوام کی خود حکمرانی) کی علامت ہے۔ ہم کسی کو یہاں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ کوئی مسجد نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شواجی کو مغربی انڈیا میں ایک ایسے ہندو حکمران کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جنہوں نے مغلوں کے خلاف جنگ کی اور مراٹھا سلطنت قائم کی۔
مدھا کلکرنی نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی یہاں اس طرح نماز پڑھ سکتا ہے تو ہندوؤں کو بھی مساجد یا تاج محل میں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘ تاج محل ایک مغل بادشاہ کے تعمیر کردہ مقبرے کے طور پر مشہور ہے۔
مدھا کلکرنی کو ریاست کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ اپنی اتحادی جماعتوں کی طرف سے بھی مذہبی منافرت کو ہوا دینے پر تنقید کا سامنا ہے۔
مہاراشٹر میں کانگریس پارٹی کے سینیئر ترجمان سچن ساونت نے ایک تاریخی شخصیت کی اہلیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’کچھ مسلمان خواتین نے شنیوار واڑہ کے اندر نماز پڑھی، جس کے بعد کچھ بی جے پی ارکان وہاں گئے اور گائے کے پیشاب سے جگہ کو ’پاک‘ کیا۔ ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ مستانی بھی شنیوار واڑہ میں رہ چکی ہیں۔‘
ساونت، جو بی جے پی کی اتحادی اجیت پوار کی قیادت میں چلنے والی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما بھی ہیں، نے مدھا کلکرنی کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’اگر وہ خواتین وہاں خدا کا نام لیتی ہیں تو آپ کے پیٹ میں کیوں درد ہوتا ہے؟ کیا کسی نے آپ کو وہاں بیٹھ کر مراقبہ کرنے سے روکا ہے؟‘
مہاراشٹر میں عام آدمی پارٹی کے ترجمان مکُند کردات نے اس اقدام کو ’مقامی بلدیاتی انتخابات سے قبل ہندو ووٹروں کو تقسیم کرنے کی واضح کوشش‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’یہ عمل برادریوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش ہے، خاص طور پر دیوالی جیسے تہوار کے دوران، جو قابلِ مذمت ہے۔‘
© The Independent