انڈیا: گائے کے گوبر سے ایندھن بنانے کا منصوبہ متعارف

انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کا کہنا ہے کہ وہ بائیوگیس بنانے کے لیے لاکھوں کلو گائے کے گوبر کو پروسیس کرے گی۔

 17اکتوبر 2024 کو لی گئی اس تصویر میں ملازمین کو انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش کے علاقے بارسانہ میں کمپریسڈ بائیو گیس کی پیداواری سہولت، بارسانہ بائیو گیس پلانٹ میں ایک مکسنگ ٹینک پر گائے کا گوبر اتارتے ہوئے دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

حکام کا کہنا ہے کہ انڈیا گائے کے گوبر کو گاڑیوں کو توانائی دینے کے لیے استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے جس سے اخراج میں کمی آئے گی، دیہی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور فضلے کے مسئلے کو توانائی کے ذرائع میں تبدیل کیا جائے گا۔

یہ منصوبہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں شروع کیا گیا ہے، اس کے تحت ہر روز آوارہ مویشیوں کے تقریباً 54 لاکھ کلوگرام گوبر کو کمپریسڈ بائیو گیس (سی بی جی) میں تبدیل کیا جائے گا۔

ماہرین کے اندازوں کے مطابق ایک گائے کے سالانہ گوبر سے نکلنے والی میتھین کی توانائی تقریباً 225 لیٹر پٹرول کے برابر ہوتی ہے، جو صفائی کے بعد ایک چھوٹی گاڑی کو تقریباً 5500 کلومیٹر چلانے کے لیے کافی ہے۔

سی بی جی کو این ایروبک ڈائجیسشن کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں نامیاتی مواد کو آکسیجن کے بغیر بند ٹینکوں میں توڑ کر بائیوگیس حاصل کی جاتی ہے، جس میں عام طور پر تقریباً آدھی میتھین ہوتی ہے۔

اس کے بعد اس گیس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات کو الگ کر کے سی بی جی تیار کی جاتی ہے، جو کیمیائی طور پر کمپریسڈ نیچرل گیس جیسی ہوتی ہے اور انہی انجنوں میں استعمال ہو سکتی ہے۔ اس عمل سے بچ جانے والا مواد ڈائجسٹیٹ کہلاتا ہے، جسے نامیاتی کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ماحولیاتی فائدہ اس بات پر منحصر ہے کہ ایندھن کا ماخذ اور پروسیسنگ کا طریقہ کیا ہے۔ اگر میتھین موجودہ مویشیوں کے پہلے سے موجود گوبر سے حاصل کی جائے، تو اسے بند کر کے ایک طاقتور گرین ہاؤس گیس کے ماحول میں پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی فوسل فیول سے حاصل شدہ ایندھن کا متبادل فراہم کرتا ہے۔

لیکن اگر گوبر کی طلب زیادہ مویشی پالنے کا باعث بنی، تو مویشیوں سے پیدا ہونے والی اضافی میتھین اس کے زیادہ تر فائدے کو کم کر سکتی ہے۔

سی بی جی کی تیاری کا عمل اپنا اخراج جاری کرتا ہے: گوبر کو جمع کرنے اور منتقل کرنے کی ضرورت ہے، ڈائجسٹر کو چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور گیس کو گاڑی کے گریڈ میں اپ گریڈ کیا جانا چاہیے۔ آب و ہوا کا خالص اثر اس بات پر منحصر ہے کہ یہ فوسل گیس نکالنے اور پروسیسنگ کے اخراج سے کیسے موازنہ کرتے ہیں۔

اس کا مجموعی ماحولیاتی اثر اس بات پر منحصر ہے کہ یہ اخراج فوسل گیس نکالنے اور پروسیس کرنے سے پیدا ہونے والے اخراجات کے مقابلے میں زیادہ ہے یا کم۔

اگرچہ اتر پردیش پہلی بار بڑے پیمانے پر گائے کے گوبر سے میتھین پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم یہ تصور انڈیا میں نیا نہیں ہے۔

گجرات میں کئی برسوں سے اس طرح کے منصوبے چل رہے ہیں۔ بانس ڈیری 40 ٹن یومیہ صلاحیت کا ایک پلانٹ چلاتی ہے جو سالانہ تقریباً 300 ٹن سی بی جی پیدا کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

باقی بچ جانے والا فضلہ کسانوں کو نامیاتی کھاد کے طور پر بیچا جاتا ہے، جس کی قیمت سبسڈی والی کیمیائی کھاد سے تقریباً ایک تہائی کم ہوتی ہے۔

یہ مغربی ریاست اپنی قابل تجدید توانائی کی حکمت عملی کے تحت 20 سے زائد نئے سی بی جی پلانٹ اور 30 ہزار گھریلو بائیو گیس یونٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

انڈیا کی مرکزی حکومت ’سٹیٹ‘ (ایس اے ٹی اے ٹی) نامی سکیم کے ذریعے بائیو گیس کو فروغ دے رہی ہے۔ اس کا مکمل نام ’قابل برداشت نقل و حمل کے لیے پائیدار متبادل‘ ہے۔

یہ سکیم 2018 میں شروع کی گئی، جو تیل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے سی بی جی کی یقینی خریداری کی پیشکش کرتی ہے۔ اس کا مقصد 2025 تک ملک بھر میں 5,000 پلانٹس قائم کرنا ہے، لیکن زیادہ ابتدائی لاگت، فیڈ سٹاک جمع کرنے میں مشکلات، اور ماہر آپریٹرز کی ضرورت کی وجہ سے پیش رفت سست ہے۔

اتر پردیش کے لیے، اگر سپلائی چین مؤثر ثابت ہو تو معاشی امکانات نمایاں ہیں۔ 2019 کی لائیو سٹاک شماری کے مطابق، اس شمالی ریاست میں ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد مویشی تھے، جن میں 62 لاکھ سے زیادہ دودھ دینے والی گائیں، 23 لاکھ دودھ نہ دینے والی گائیں اور 11 لاکھ 80 ہزار آوارہ مویشی شامل ہیں۔

مویشیوں کی اکثریت آزادانہ طور پر سڑکوں اور عوامی مقامات پر گھومتی ہے، جہاں ان کا فضلہ اکثر پڑا رہتا ہے۔

گوبر کی مؤثر کلیکشن ریاست کی توانائی کی ضروریات اور فضلہ مینجمنٹ کے مسئلے دونوں کو حل کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اگر منصوبہ کامیاب ہوا تو ریاست کی پیداوار دیہی ایندھن نیٹ ورک اور شہری سی این جی سٹیشنوں دونوں کو فراہم کی جائے گی، جس سے درآمد شدہ قدرتی گیس پر انحصار کم ہوگا اور فوسل فیول سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی آئے گی۔

اتر پردیش کے گاؤ سیوا کمیشن کے چیئرمین شیام بہاری گپتا نے کہا کہ یہ ایندھن دیہی گھروں میں کھانا پکانے اور چھوٹی صنعتوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کمیشن میں خصوصی ڈیوٹی پر مامور افسر ڈاکٹر انوراگ سریواستو نے کہا: ’میتھین فارمنگ مستقبل میں فوسل فیول کا متبادل بن سکتی ہے۔‘

ریاست بائیو گیس پر بڑے پیمانے پر انحصار کر رہی ہے، اور 2022 سے 2027 کے دوران بائیو انرجی منصوبوں کے لیے سات کروڑ پاؤنڈ مختص کر چکی ہے، ساتھ ہی سبسڈیز، زمین اور دیگر مراعات فراہم کر رہی ہے۔

سی بی جی (کمپریسڈ بائیو گیس) کی آئندہ پیداوار کی صلاحیت میں یہ (ریاست) پورے ملک میں سب سے آگے ہے، جہاں 128 منصوبے مختلف مراحل میں ہیں، جن میں سے 15 پلانٹ پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔

ریاست پہلے ہی پریاگ راج علاقے میں اپنا پہلا بائیو-سی این جی پلانٹ کھول چکی ہے، جب کہ بڑے پلانٹس برسانا اور دیگر اضلاع میں بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے اس کے ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ اقدام کا حصہ ہیں، جس کا مقصد زرعی اور مویشیوں کے فضلے کو قابل فروخت وسائل میں بدلنا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا