انڈین مسلمان اب چھوٹے خاندان کیوں اپنا رہے ہیں؟

انڈیا رواں ماہ اپریل میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

انڈیا کی 2011 میں ہونے والی آخری مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جو ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کا 13 فیصد ہیں۔

لیکن اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود انڈیا میں مسلم کمیونٹی کو سب سے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔

راشدہ یحییٰ بھی انڈیا کے ایک قدامت پسند مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کے والدین نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔

راشدہ کے سات بہن بھائی ہیں لیکن ان کی ماسٹرز تک تعلیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اپنے خاندان کو اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دیں۔

راشدہ کے اپنے دو بچے ہیں جنہوں نے ایک چھوٹے خاندان کا فیصلہ کیا تاکہ بچوں کو  بہتر معیار زندگی فراہم کیا جا سکے۔

انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’میرا بیٹا شادی شدہ ہے اور اس کے بھی دو بچے ہیں اور میری بیٹی ابھی تک غیر شادی شدہ ہے۔ لیکن آگے جا کر معلوم نہیں ہوگا کہ ان کے بچے بھی کم ہوں گے۔‘

راشدہ نے کہا کہ روایتی طور پر انڈیا میں مسلم خاندانوں میں مانع حمل اور خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے مذہبی عقائد کی وجہ سے بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

ان کے بقول: ’مسلمانوں کی اکثریت، خاص طور پر مولوی قسم کے لوگ یہ مانتے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ( مانع حمل اور خاندانی منصوبہ بندی) حرام ہیں اور ہمارے خدا نے اس سے منع کیا ہے اور اسی لیے ان پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت میں قرآن میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔‘

انڈیا میں مسلمانوں کی شرح افزائش تمام مذاہب میں سب سے زیادہ  یعنی 2.3 ہے تاہم گذشتہ دو دہائیوں کے دوران دیگر مذاہب کے مقابلے میں اس شرح میں سب سے بڑی کمی بھی دیکھی گئی ہے۔

ماہرین نے کہا کہ انڈیا چین کو پیچھے چھوڑ کر جلد دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کے لیے تیار ہے اور اس تناظر میں مسلم خاندانوں کا سکڑنا ملک کی آبادی پر قابو پانے کے پروگراموں کی کامیابی اور آبادیاتی استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔

شہر مرادآباد میں جہاں تقریباً 46 فیصد آبادی مسلمان ہے، خاندان سماجی و اقتصادی تبدیلی کے لیے تعلیم اور خاندانی منصوبہ بندی کو اپنا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دستکاری کا کاروبار کرنے والے 65 سالہ شاہد پرویز نے کہا کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ان کے تینوں بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں تاکہ انہیں اسی محرومی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انہوں نے کہا: ’حالات ایسے تھے کہ خاندان بڑا ہوتا تو تعلیم سمیت ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ بڑے دو بھائیوں کی تعلیم میں مسئلہ تھا لیکن ہم نے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے میں مدد کی کیونکہ ہم نے اپنا ایک کاروبار شروع کر دیا تھا۔‘

شاہد کے بڑے بیٹے اور بیٹی حنان اور منیزہ دونوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگریاں حاصل کی ہیں جب کہ ان کا سب چھوٹا بیٹا ایک وکیل ہے۔

حنان اور منیزہ نے کہا کہ جدید دور میں چھوٹا خاندان نہ صرف سمجھداری کی بات ہے بلکہ یہ پچھلی نسلوں کے برعکس خاندانی منصوبہ بندی کے عمل کا حصہ بھی ہے۔

مسلمان عالمہ اور مصنفہ شیبا اسلم فہمی نے کہا کہ تعلیم اور اسلام کی جدید تشریح تبدیلی کو جنم دینے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔

ان کے بقول: ’پہلے تشریحات اتنی سخت تھیں کہ یہ سوچا جاتا تھا کہ جو کچھ بھی آپ کے راستے میں آتا ہے وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ تو اب ایسا نہیں ہے، ہم اصولوں کی تشریح بھی جدید طریقے سے کر رہے ہیں اور خاندانی منصوبہ بندی کو اپنانے میں کسی قسم کا گناہ نہیں ہے۔‘

انڈیا کی ریاستی حکومتوں نے آبادی میں اضافے کے لیے اقدامات بھی متعارف کروائے ہیں۔

سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش نے قانون سازی کی تجویز پیش کی تھی جس کا مقصد جوڑوں کو دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔

اس تجویز کے تحت دو سے زیادہ بچوں والے جوڑوں کو سرکاری فوائد یا سبسڈی حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور ان پر ریاستی سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے پر بھی پابندی ہو گی۔

ان تمام باتوں کے باوجود انڈیا رواں ماہ اپریل میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا