انڈیا کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کی دودھ کے برانڈ پر لڑائی

گجرات کی معروف کمپنی امول کے کرناٹک میں کاروبار شروع کرنے کے اعلان پر الیکشن سے پہلے سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔

31 اکتوبر، 2021 کو آنند میں امول کی 75ویں سالگرہ کے موقعے پر فیکٹری کے باہر وزیر اعظم نریندر مودی کا کٹ آؤٹ لگا ہوا ہے (اے ایف پی)

انڈین ریاست گجرات میں قائم دودھ فروخت کرنے والی معروف کمپنی امول نے کرناٹک میں کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کمپنی کے اس فیصلے کے بعد انتخابات سے پہلے جنوبی ریاست میں سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔

قبل ازیں اس ماہ امول نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’دودھ اور دہی کے ساتھ تازگی کی نئی لہر بنگلورو (کرناٹک میں) آ رہی ہے۔ مزید معلومات جلد فراہم کی جائیں گی۔ ہیش ٹیگ لانچ الرٹ۔‘

اس اعلان پر ردعمل غیر متوقع تھا۔ انڈیا میں سیاسی جماعتوں کے درمیان الفاظ کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔

یہ ایک ایسا ردعمل ہے جس کے بارے میں بہت سے ماہرین نے دعویٰ کیا کہ اس کا ہدف کرناٹک میں مئی میں ہونے والے انتخابات ہیں۔

کرناٹک کی جنوبی ریاست میں امول کی کاروباری سرگرمیوں کے آغاز کو کرناٹک کے مقامی اور سب سے بڑے دودھ کوآپریٹو، کرناٹک ملک فیڈریشن (کرناٹک ملک فیڈریشن)  کے لیے براہ راست خطرہ کے طور پر دیکھا گیا جو نندنی کے نام سے دودھ اور دہی فروخت کرتی ہے۔

’سیو نندنی‘ اور ’گو بیک امول‘ کے ہیش ٹیگز جلد ہی ٹوئٹر پر ٹرینڈ ہونے لگے۔

سیاسی پنڈت اس آغاز کو گجرات کوآپریٹو ملک مارکیٹنگ فیڈریشن (جی سی ایم ایم ایف) کے برانڈ، امول کو کے ایم ایف  کے برانڈ نندنی کے درمیان تصادم کے طور پر دیکھتے ہیں۔

کرناٹک میں 10 مئی کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ریاست میں سیاسی جماعتوں کی ریلیوں اور مہم کا ایک سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن کی انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) انڈیا کی دو بڑی سیاسی جماعتیں امول کے اعلان پر آپس میں دست و گریباں ہیں۔

10 اپریل کو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریا نے ٹیلی ویژن چینل نیوز 18 کو بتایا کہ کانگریس اپنی انتخابی مہم میں جان ڈالنے کے لیے امول بمقابلہ نندنی بحث کو استعمال کر رہی ہے۔

کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو سے رکن پارلیمنٹ نے دعویٰ کیا کہ ’اگر آپ کو امول سے کوئی مسئلہ ہے تو آپ کو اروکیا، تمل ناڈو سے ہیریٹیج، تھرومالا، اور آندھرا پردیش سے ڈوڈلا جیسے برانڈز سے بھی مسئلہ ہونا چاہیے۔ صرف امول کو ہی کیوں نشانہ بنایا؟

’کرناٹک کے لوگ واضح طور پر جانتے ہیں کہ یہ نندنی سے محبت نہیں بلکہ امول سے ان کی نفرت ہے جیسا کہ گجرات سے ہے اور امت شاہ اور نریندر مودی کا تعلق گجرات سے ہے۔‘

کانگریس نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ امول کے آنے سے ریاست کے دودھ فروخت کرنے 25 لاکھ کاشت کار تباہ ہو جائیں گے۔

انتخابات میں داؤ پر لگی ایک اور سیاسی جماعت جنتا دل (سیکولر) بھی اس بحث میں شامل ہو چکی ہے۔

کرناٹک میں دودھ بیچنے والے کسانوں کا ووٹ انتخابات میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے ان کی حمایت حاصل کرنا سیاسی جماعتوں کے لیے بہت بڑا بونس ہے۔

جے ڈی (ایس) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رہنما ایچ ڈی کمارسوامی نے کہا: ’امول نے کرناٹک ملک فیڈریشن اور کسانوں کا گلا دبوچ رکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’کنندیاگاس (کرناٹک کے لوگوں) کو امول کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘

کمارسوامی نے الزام لگایا کہ ’ایک قوم، ایک امول، ایک دودھ، ایک گجرات سے ایسا لگتا ہے کہ یہ مرکزی حکومت کا سرکاری موقف ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق کرناٹک کانگریس کے ایک اور رہنما ڈی کے شیوکمار نے اے این آئی کے حوالے سے کہا کہ ’ہمارے پاس پہلے سے ہی نندنی موجود ہے جو امول سے بہتر برانڈ ہے۔ ہمیں کسی امول کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پانی، ہمارے دودھ اور ہماری مٹی میں جان ہے۔‘

کانگریس کے رہنما سدارامیا نے اپنی ٹویٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ کرناٹک کے لوگوں سے پہلے ہی بینک، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے چوری کر چکے ہیں۔ کیا آپ ہم سے نندنی (کے ایم ایف)  چرانے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘

شیوکمار نے بی جے پی پر مقامی نندنی برانڈ کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ ’کرناٹک کے لوگ اپنی عزت نفس کبھی نہیں بیچیں گے۔‘

تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی کہ ریاست میں ڈیری برانڈ امول کے داخلے سے شروع ہونے والے اس طوفان کا ریاستی انتخابات پر کچھ اثر پڑے گا۔

کچھ کا ماننا ہے کہ اسے کرناٹک کے لوگوں کی شناخت پر حملہ سمجھا جا رہا ہے۔

اخبار انڈین ایکسپریس نے کے ایم ایف  کے ڈائریکٹروں میں سے ایک آنند کمار کے حوالے سے کہا کہ کوآپریٹیو ’امول سے بہتر دودھ کے معیار کے باوجود نندنی برانڈ کی مارکیٹنگ اور اسے فروغ دینے میں بہت پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیش ٹیگ سیو نندنی  اہم ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے اخبار کو بتایا کہ ’اگرچہ امول کے دودھ کا استعمال صرف 10 فیصد ہے لیکن ان کی تشہیر 90 فیصد ہے جو کرناٹک کے ڈیری کسانوں کے لیے بڑی تشویش ہے۔

’ہمیں نندنی کی برانڈ ویلیو کو بڑھانے اور لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے ایک جان دار اشتہاری مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کے ایم ایف، نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ سے اپیل کرنے جا رہی ہے کہ وہ امول کو کام لینے سے روکے، ان کے مطالبات سنے جائیں اور کے ایف ایف کو سرکردہ برانڈ بنایا جائے۔ کے ایم ایف ’صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے‘ احتجاج کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے۔

امول بمقابلہ نندنی کا معاملہ اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ ایک ہوٹل ایسوسی ایشن نے، بروہت بنگلور ہوٹلز ایسوسی ایشن (بی بی ایچ اے) جو شہر کے تقریباً 24 ہزار بڑے اور چھوٹے ہوٹلوں کی نمائندگی کرتی ہے، کہا کہ وہ امول کے آگے جانے پر نندنی کی حمایت کریں گے۔

لیکن کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی جے پی کے بسواراج بومائی نے واضح طور پر کہا کہ امول کو ریاست میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے گا کیوں کہ نندنی کی مصنوعات دوسری ریاستوں میں بھی فروخت ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ امول کے ساتھ مقابلے میں مقامی برانڈ کی مدد کریں گے۔

کرناٹک میں امول کے نندنی کی جگہ لینے کا خوف کا تعلق ماضی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ایک بیان کے ساتھ ہے۔

وزیر داخلہ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ گجرات کوآپریٹیو جو امول اور کے ایم ایف کو مصنوعات فروخت کرتی ہے، کرناٹک کے تمام دیہات میں ڈیری فارم قائم کرنے کے لیے مل کر کام کرے گی۔ لیکن ان کے بیان کو دونوں کوآپریٹیو اداروں کو آپس میں ضم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔

دریں اثنا اخبار فائنینشل ایکسپریس کے مطابق جی سی ایم ایم ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹر جین مہتا نے کہا کہ ’امول فی الحال ای کامرس یا کوئیک کامرس چینلز کو دیکھ رہا ہے اور معمول کی تجارت کو نہیں دیکھ رہا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا