پنجاب: ’کھلے دودھ کی فروخت روکنا کمپنیوں کو نوازنے کی کوشش‘

گوالا ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری نصیر گجر کے مطابق ’ٹریس ایبل دودھ کا فارمولہ لاگو کر رہے ہیں کہ سپلائی کس نے کیا اور کہاں سے آیا مگر پیکنگ کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ کیمیکل ڈال کر دودھ کو خراب ہونے سے بچائیں گے تو اس کا فریش دودھ والا ذائقہ نہیں رہے گا۔‘

پانچ مئی 2020 کو راولپنڈی میں دودھ کی فروخت کا ایک منظر (اے ایف پی)

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے صوبہ بھر سمیت خاص طور پر لاہور میں کھلے دودھ کی فروخت روک کر پیکنگ میں دودھ کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے ایک پھر مہم شروع کی ہے۔

کھانے پینے کی اشیا کا معیار حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق قائم کرنے کے لیے بنائے گئے ادارے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے کھلے دودھ کو فروخت کرنے والوں کی کم از کم پہچان ظاہر کرنے پر عمل درآمد کی حکمت عملی بنائی ہے، تاکہ ملاوٹ شدہ دودھ فروخت نہ ہوسکے۔

سات سال پہلے دودھ فروشوں اور گوالوں کو ہدایات دی گئیں کہ وہ دودھ یا تو پیکنگ میں فروخت کریں یا پھر کم از کم ایسا فارمولہ طے کریں کہ جو ملاوٹ شدہ دودھ پکڑا جائے اس کی نشاندہی ہو کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔

ترجمان پنجاب فوڈ اتھارٹی محمد عمیر کے بقول ’کھلے دودھ کی پیکنگ یا اسے ٹریس ایبل بنانے پر کام جاری ہے۔ یہ کئی سالوں کا کام ہے جس پر عمل درآمد کرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ 2023 سے یہ کام مکمل ہونا تھا لیکن ابھی اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔‘

ملک سپلائرز اینڈ سیلرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر چوہدری نصیر گجر کا کہنا ہے کہ ’فوڈ اتھارٹی کی ہدایت پر صفائی اور خالص دودھ کی سپلائی یقینی بنائی جاچکی ہے تاہم کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی ممکن نہیں۔ جسے کھلا دودھ کہا جاتا ہے وہ فریش دودھ ہوتا ہے جس کی پیکنگ والے دودھ سے زیادہ ڈیمانڈ ہے۔‘

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد لوگ کھلا دودھ استعمال کرتے ہیں حالانکہ کھلے دودھ میں ملاوٹ کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔

کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی ممکن کیوں نہیں؟

پنجاب میں اشیائے خورونوش کا معیار بہتر رکھنا ضلعی حکومتوں کے مقامی اہلکاروں کی ذمہ داری تھی، بعد ازاں 2013 میں فوڈ اتھارٹی کے نام سے باقاعدہ ادارہ قائم کیا گیا جس نے 2015 میں اسمبلی سے قانون سازی کرائی کہ صوبے میں کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی عائد کر کے پیکنگ میں سپلائی کو یقینی بنایا جائے اور اس کے لیے 2023 تک کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا۔

لیکن اس پر مکمل عمل درآمد ابھی تک نہیں ہوسکا تاہم کئی کمپنیاں پیکنگ میں دودھ فروخت ضرور کر رہی ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق ’کھلے دودھ پر پابندی صوبے بھر میں لگائی جائے گی تاہم پہلے مرحلے میں لاہور سے پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی حکمت عملی بنالی گئی ہے۔‘

ڈی جی فوڈ اتھارٹی مدثر ریاض ملک کے مطابق ’ٹیسٹنگ کے مرحلے میں کھلا دودھ مضر صحت پایا گیا ہے جس کے بعد لاہور میں گلی محلوں کی دکانوں پر بھی اب پیکنگ میں دودھ فروخت کیا جائے گا جس کے لیے گوالا ایسوسی ایشن سے بات چیت چل رہی ہے، اس معاملے میں گوالا ایسوسی ایشن کو اعتماد میں لے کر مزید فیصلے کیے جائیں گے۔‘

ترجمان پنجاب فوڈ اتھارٹی محمد عمیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دودھ سپلائرز اور سیلرز سے بات چیت جاری ہے۔ انہیں اس بات پر قائل کیا جا رہا ہے کہ وہ اگر فوری پیکنگ میں دودھ فروخت نہیں کر سکتے تو کم از کم پہلے مرحلے میں خالص اور ٹریس ایبل دودھ کی فروخت یقینی بنائیں۔ جب فوڈ اتھارتی ملاوٹ شدہ یا مضر صحت دودھ پکڑتی ہے تو معلوم نہیں ہوتا یہ کہاں سے آیا ہے۔‘

عمیر کے بقول ’گوالوں، سپلائیرز اور دوکانداروں کو بتایا ہے کہ وہ مخصوس برتن استعمال کریں جن پر دودھ دینے والوں کی مہر لگی ہو تاکہ علم ہوسکے یہ کون سا دودھ ہے اور کہاں سے آیا ہے۔‘

دودھ سپلائی اور فروخت کرنے والوں کی صوبائی ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری نصیر گجر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کھلے دودھ کا مطلب فریش دودھ ہے جس کو دنیا بھر میں پذیرائی ملتی ہے۔‘

نصیر کے بقول انہوں نے فوڈ اتھارٹی حکام کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ملاوٹ شدہ اور مضر صحت دودھ فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں تعاون کررہے ہیں مگر دودھ کی پیکنگ ممکن نہیں کیونکہ پہلے ہی کمپنیاں پیکنگ میں فروخت کر رہی ہیں۔

’جس نے پیکنگ والا لینا ہے وہ خرید لے، جس نے کھلا لینا ہے وہ کھلا دودھ خریدے، لہذا ٹریس ایبل کا فارمولہ تو لاگو کر رہے ہیں لیکن پیکنگ کی طرف جانا اس لیے بھی ممکن نہیں کہ کیمیکل ڈال کر دودھ کو خراب ہونے سے بچائیں گے تو اس کا فریش دودھ والا ذائقہ نہیں رہے گا۔‘

نصیر گجر کا کہنا ہے کہ ’فوڈ اتھارٹی حکام کو بھی علم ہے کہ فریش دودھ کی پیکنگ ممکن نہیں، صرف کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کیونکہ کھلا دودھ 140 روپے لیٹر ہے جبکہ ڈبے والا دودھ کمپنیاں پیکنگ میں 220 سے 240 روپے لیٹر فروخت کرتی ہیں۔ پیکنگ سے 100 روپے فی لیٹر اضافہ ہمارے لیے بھی فائدہ مند ہے لیکن عام لوگ کیسے خریدیں گے؟‘

کھلا دودھ واقعی مضر صحت ہے؟

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد کے بقول  ’پاکستان کے عوام اس وقت جو دودھ استعمال کررہے ہیں اس کا معیار انتہائی خراب ہے کیونکہ اس کے نکالنے سے لے کر سپلائی کیے جانے تک ہر چیز اور عمل غیر معیاری ہوتا ہے۔‘

صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’ان جراثیموں سے دودھ کو پاک کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے جس کے باعث یہ شہریوں خصوصاً بچوں کی صحت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے، لہذا عوام کو چاہیے کہ جراثیم سے پاک بند ڈبے والا دودھ استعمال کریں۔‘

’پاکستان میں 90 فیصد لوگ کھلا دودھ استعمال کرتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، چند ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں کھلا دودھ فروخت نہیں کیا جاتا، دنیا کے بیشتر ممالک میں دودھ کی فروخت میں حفظان صحت کے اصولوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد نے عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’جان ہے تو جہان ہے، آپ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کی خود حفاظت کریں، بند ڈبے کا دودھ اچھی صحت کا ضامن ہے، لہٰذا کھلے دودھ کے بجائے ڈبے میں بند دودھ استعمال کریں۔‘

2020 میں کیے گئے اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں دودھ کی سالانہ پیداوار لگ بھگ 50 ارب لیٹر سے زائد ہے جب کہ 75 فیصد عوام کو معیاری دودھ میسر نہیں ہے۔

’کھلے دودھ میں آلودہ پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے، گاڑھا کرنے کے لیے مختلف قسم کے کیمیکلز کی آمیزش کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اس دودھ کی کوالٹی کو چیک کرنے کے لیے بھی صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔‘

’حلال جانور کا دودھ اگر چند گھنٹوں میں نہ ابالا جائے تو اس میں بیکٹیریا کی تعداد اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتا ہے، اس لیے اسے فوراً ابالنا پڑتا ہے جس کے بعد اگر آپ اسے نارمل درجہ حرارت پر رکھتے ہیں تو وہ چار سے چھ گھنٹے میں خراب ہوجاتا ہے اور اگر آپ اسے ٹھنڈا کر لیتے ہیں تو وہ آٹھ سے دس گھنٹے میں خراب ہو جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اسی طرح دودھ کی طلب اور رسد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس میں پانی ملایا جاتا ہے جس کے معیار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘

اس کے علاوہ ’کچھ گوالے اپنی بھینسوں کو ایسے ٹیکے لگاتے ہیں جس سے وہ جلد اور زیادہ دودھ دینے لگتی ہیں اور یہ انجکشن جانور اور صارف دونوں کی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’بازار یا کسی گوالے سے خریدے ہوئے دودھ کا معیار چیک کرنے اور اسے دیر تک محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دودھ کو فوری طور پر گرم کر لیں۔ دودھ گرم کرنے کے بعد اس پر جمنے والی ملائی سے اس کے خالص ہونے کا بہت آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر باقی رہ جانے والی ملائی میں تیل محسوس ہو تو یہ جان لیں کہ دودھ خالص ہے اگر یہ خشک محسوس ہو تو دودھ میں ملاوٹ کی گئی ہے۔‘

چوہدری نصیر گجر کے مطابق ’فوڈ اتھارٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے فریش دودھ کو خالص حالت میں شہریوں تک پہنچانے کے لیے جدید گاڑیاں تیار کروائیں، صاف برتن اور ٹین استعمال میں لائے گئے، پہلے جو سپلائی کا طریقہ تھا اسے جدید انداز میں تبدیل کردیا گیا جس سے دودھ کی بہترین سپلائی کی جاتی ہے۔ جہاں خامیاں ہیں وہاں فوڈ اتھارٹی ایکشن لیتی ہے۔ ویسے تو ڈبوں میں بھی پاؤڈر ملا اور کیمیکل سے تیار دودھ فروخت ہوتا ہے، اگر کھلے دودھ میں ملاوٹ کا خطرہ ہوتا ہے تو ڈبوں میں بھی مکمل گارنٹی نہیں کہ خالص ہو اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کیا گیا ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان