بلوچستان: کم پانی کے ساتھ زیادہ منافع دینے والا زعفران

صوبائی محکمہ زراعت کے ریسرچ سینٹر میں کم پانی کے ساتھ زعفران کی کاشت میں حاصل ہونے والی کامیابی نے کاشت کاروں نے ایک کلوگرام زعفران پر پانچ لاکھ روپے تک منافع حاصل کرنے کی راہ دکھا دی۔

بلوچستان میں محکمہ زراعت کے ریسرچ سینٹر میں زعفران کی کاشت میں حاصل ہونے والی کامیابی نے صوبے کے کاشت کاروں کو ایک ایسی نئی راہ دکھا دی ہے، جو کم پانی میں زیادہ منافع دے سکتی ہے۔

اس سے قبل بلوچستان کے کاشت کار زیادہ تر ایسی فصلوں یا باغات پر انحصار کرتے تھے جن کے لیے زیادہ پانی اور کھاد کی ضرورت پیش آتی تھی۔

مہنگے ترین عالمی مصالحے کے طور پر پہچانے جانے والا زعفران اب بلوچستان کے کسانوں کے لیے کم پانی اور کم محنت میں زیادہ منافع دینے والی فصل کے طور پر توجہ حاصل کر رہا ہے۔ صوبے کے سرد اور خشک علاقے خصوصاً کوئٹہ، زیارت، ژوب، قلات، موسیٰ خیل، پشین اور خضدار اس فصل کے لیے انتہائی موزوں سمجھے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی طور پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ایکڑ زمین سے تقریباً ایک کلو تک زعفران حاصل کیا جا سکتا ہے، جس کی عالمی منڈی میں قیمت سات سے نو لاکھ روپے تک بنتی ہے، جب کہ مناسب دیکھ بھال پر بلوچستان کے کسان بھی کم از کم پانچ لاکھ روپے فی کلو آمدن حاصل کر سکتے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر بلوچستان عبد الرؤف خان کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زعفران مستقبل قریب میں صوبے کی اہم ترین فصل ہوگی۔

انہوں نے کہا: ’جس طرح ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان میں پانی کی قلت بڑھ رہی ہے، بارشیں کم ہو رہی ہیں، اس لیے ہمیں ایسی فصلیں اگانی ہوں گی جو کم پانی لیں اور اچھی آمدن دیں۔

’زعفران انہی میں سے ایک ہے۔ اگر اکتوبر میں بارش ہو جائے تو اسے پانی دینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور بارش نہ ہو تو ایک دو بار پانی دینے سے فصل آسانی سے اگ جاتی ہے۔‘

ماہرین کے مطابق زعفران کی کاشت اگر منظم بنیادوں پر فروغ پائے تو بلوچستان مستقبل میں نہ صرف زرعی پیداوار بڑھا سکتا ہے بلکہ خطے کی مجموعی معیشت بھی مضبوط ہو سکتی ہے۔

بلوچستان میں رواں سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کو خشک سالی کا سامنا ہے، ایسے میں صوبے کے کاشت کار اپنی فصلوں کی آبپاشی کے لیے پریشان ہیں۔

کاشت کار ایکشن کمیٹی کے چیئرمین عبدالرحمان بازئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں 1990 کی دہائی سے خشک سالی کی لہر چل رہی ہے، درمیان میں دو تین مرتبہ مون سون میں بارشیں ہوئی ہیں، جن کا زیادہ تر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں بلوچستان کے کاشت کار چاہیں گے کہ وہ کم پانی لینے والی فصلوں کی طرف جائیں۔ بقول عبد الرحمان بازئی: ’اگر حکومت کاشت کاروں کو زعفران کا بیج کم قیمت اور وافر مقدار میں فراہم کرے تو وہ اسے خوشی سے کاشت کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت