کیا بی جے پی راہل گاندھی کو ’مائنس‘ کر پائے گی؟

بی جے پی کو احساس ہے کہ ہزاروں میل پیدل سفر کرنے کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد راہل گاندھی وہ نہیں ہیں جنہیں وہ تمسخر اڑا کر ’پپو‘ پکارتی رہی ہے۔

کانگریس پارٹی کے حامی راہل گاندھی کی سزا کی خلاف 26 مارچ 2023 کو نئی دہلی میں احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

حالیہ چند روز میں انڈیا کے شہروں میں بھی اسی طرح سے جمہوریت بچاؤ احتجاجی جلسے اور ریلیاں شروع ہونے لگی ہیں جیسے تقریباً ایک سال سے پاکستان میں جلسے جلوس، لانگ مارچ اور احتجاج ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں اکثر و بیشتر کچھ سیاست دانوں کو ’مائنس‘ کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، اسی طرح انڈیا میں بھی بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کو سیاسی منظر نامے سے ’مائنس‘ کرنے کا ایک موثر منصوبہ روبہ عمل لایا گیا ہے۔

گجرات کے شہر سورت میں چار سال پرانے ہتکِ عزت کے ایک معاملے کی فوری سنوائی کرا کے راہل کو دو سال قید کی سزا دی گئی۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملک کے اثاثے لوٹنے والوں کا ذکر کرنے کے دوران نریندر مودی، نیرو مودی اور نچلے ذات کے ہندوؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سزا کے بعد پارلیمان سے فورا انہیں نااہل قرار دیا گیا اورپھر سرکاری رہائش گاہ کو خالی کرنے کا حکم جاری ہوا۔ ہتک عزت کے کیس کا فوری فیصلہ آنے پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو حیرانی ہوئی ہے۔

حکمران جماعت بی جے پی کو بخوبی علم ہے کہ راہل ایک باوقار سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کی جڑیں انڈیا کی سرزمین میں پیوست ہیں، بھلے ہی انہیں چند انتخابات میں سبقت حاصل نہیں ہوئی۔

ایک زمانے میں جس طرح کانگریس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ ایک ناقابل تسخیر جماعت ہے وہی آج بی جے پی کے لیے کہا جا رہا ہے لیکن سیاست میں کوئی شئے دائمی نہیں ہوتی۔

کانگریس پارٹی اب بھی انڈیا کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے جو کسی بھی وقت بی جے پی کا بستر گول کر سکتی ہے۔

کسی بھی دوسری قومی یا علاقائی جماعت کو ابھی کانگریس جیسی حثیت حاصل نہیں ہوئی ہے حالانکہ اروند کیجریوال کی ’عام آدمی پارٹی‘ اور ممتا بینرجی کی ’ترنمول‘ نے اپنی ریاستوں کے علاوہ ایک دو خطوں میں پارٹی کی پوزیشن مستحکم کر دی ہے۔

موجودہ سیاسی محاذ آرائی کے پس منظر میں ایک ارب 30 کروڑ آبادی راہل گاندھی کے سیکیولر جمہوریہ کا ساتھ دے گی یا مودی کے ہندو راشٹر کا؟

بی جے پی نے ’کانگریس مکت بھارت‘ یا کانگریس سے آزاد انڈیا کے لیے تابڑ توڑ حملے کیے مگر کانگریس کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے بی جے پی کو ابھی کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑے گا۔

خود حکمران جماعت کو احساس ہے کہ ہزاروں میل پیدل سفر کرنے کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد راہل گاندھی وہ نہیں ہیں جنہیں وہ تمسخر اڑا کر ’پپو‘ پکارتی رہی ہے۔

جنوبی انڈیا کے سیاسی تبصرہ نگار میلون بھٹاچاریہ کہتے ہیں کہ ’اپنا امیج بحال کرنے کی راہل کی پہل کامیاب ہوئی ہے اور زمینی سطح پر عوام سے رابطے نے انہیں انڈیا کو سمجھنے اور قریب آنے کا بہترین موقع فراہم کیا جس کا ثمر فی الحال یہ ہے کہ انڈیا میں بی جے پی کی ہندوتوا تحریک کو دھچکہ دکھائی دیتا نظر آرہا ہے۔

’یہی کارن ہے کہ بی جے پی والے پریشانی میں الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگے ہیں۔ لوگ سمجھ گئے ہیں کہ راہل کا سیکیولر بیانیہ موجودہ حالات میں انتہائی اہم ہے ورنہ یہ ملک بکھر جائے گا۔‘

جب سے راہل نے نریندر مودی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر گوتم اڈانی کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں پارلیمان میں سوالات پوچھنا شروع کیے اور اس کی تحقیقات پر پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی بنانے کی مانگ کی ہے اس وقت سے حکمران جماعت شدید دباؤ میں ہے اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار خود حکومت نے پارلیمان کی کارروائی کو چلنے نہیں دیا۔

پارلیمان کو دو ہفتے سے بار بار معطل کرنا، سیاہ لباس پہن کر پارلیمان کے باہر اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ احتجاج اور سڑکوں پر پولیس کی زیادتیوں کے خلاف کانگریس کی یوتھ ونگ کے غصے کا اظہار حکمران جماعت میڈیا کی نظروں سے چھپانا چاہتی تھی لیکن کسی حد تک ناکام ہو گئی، حالانکہ پورا میڈیابی جے پی کے کنڑول میں ہے۔

بی جے پی کے ایک ترجمان کے مطابق ’مودی کے خلاف بولنے والے راہل گاندھی کو سیاست سے ہمیشہ کےلیے بے دخل کرنے کا پلان کامیاب ہو گا باقی اپوزیشن کی کوئی اوقات نہیں ہے۔‘

بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ سزا اور پارلیمان سے نکالنا کانگریس اور راہل کے لیے شدید دھچکہ ہے اور پوری اپوزیشن اس وقت خوف سے گزر رہی ہے۔

میرا خیال ہے کہ جہاں اس کارروائی نے راہل گاندھی کو سیاسی ہیرو کے ساتھ جمہوریت کی علامت بنایا ہے وہیں کانگریس کے جسم میں بھی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علاوہ ازیں تمام اپوزیشن اور علاقائی جماعتیں بیدارہو گئی ہیں کہ وہ بی جے پی کو ہرانے کے لیے اگر اب بھی متحد نہیں ہوتیں تو وہ ان سب کو الگ الگ سےمسل کر رکھ دے گی۔

اس کی مثالیں پنجاب کی اکالی دل، جموں و کشمیر کی پی ڈی پی اور تمل ناڈو کی اناڈی ایم کے کی دی جا سکتی ہیں۔

سیکیولر عوامی حلقوں کو ادراک ہے کہ بی جے پی جس ڈگر پر اس ملک کو لے کے جا رہی ہے وہ ہندو راشٹر تو بنا سکتی ہے مگر شاید وہ اس ملک کو متحد نہیں رکھ سکتی، جہاں آزادی کے حق میں کئی تحریکوں کی بازگشت پھر سنائی دے رہی ہے، حالانکہ آر ایس ایس نے بنیادی سطح پر ہندو راشٹر کی آبیاری کے لیے کٹرہندوؤں کو تیار کر رکھا ہے۔

راہل رکن پارلیمان رہیں یا نہ رہیں، اس سے شاید ہی کوئی فرق پڑ سکتا ہے لیکن ان کا جو شبیہ ابھر کر سامنے آنے لگی ہے وہ مودی کے لیے ضرور پریشان کن بن سکتی ہے۔

موجودہ سیاسی محاذ آرائی کے پس منظر میں ایک ارب 30 کروڑ آبادی راہل گاندھی کے سیکیولر جمہوریہ کا ساتھ دے گی یا مودی کے ہندو راشٹر کا؟

اس کی واضح تصویر اگلے سال کے پارلیمانی انتخابات میں نظر تو آئے گی البتہ راہل گاندھی کو ایک عام سیاست دان کی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کی توقع ضرور ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ