پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی خدیداری کے لیے پیشکش جمع کرانے کی آخری تاریخ 19 جون (جمعرات) ہے جس میں کئی بڑے گروپس کے ساتھ کمپنی کے ملازمین نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
قومی ایئرلائن کی فروخت تقریباً دو دہائیوں میں پہلی بڑی نجکاری ہوگی جبکہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی فروخت گذشتہ سال انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی شرائط میں شامل تھی۔
گذشتہ سال حکومت نے بجٹ پر بوجھ بننے والی پی آئی اے کو فروخت کرنے کی کوشش کی تھی تاہم ایئرلائن کی خراب حالت اور خریداری سے متعلق شرائط کی وجہ سے یہ فروخت منسوخ کر دی گئی تھی۔
قومی ایئرلائن کے 100 فیصد حصص تک کی فروخت میں دلچسپی کے اظہار کی آخری تاریخ کل یعنی جمعرات ہے جب کہ ہوا بازی کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس کی خریداری کے لیے مزید بولی دہندگان بھی سامنے آئیں گے۔
ماہرین کے مطابق اس سودے کو ٹیکس میں رعایت اور پی آئی اے کی مالی حالت میں بہتری کے آثار کے ذریعے مزید پرکشش بنایا گیا ہے۔
وزارت نجکاری نے اس معاملے پر روئٹرز کی تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
روئٹرز نے بدھ کو ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ بولی دینے والوں میں یونس برادرز گروپ شامل ہے جو لکی سیمنٹ اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا ملکیتی گروپ ہے اور عارف حبیب لمیٹڈ کی قیادت میں ایک کنسورشیم شامل ہے، جس میں فاطمہ فرٹیلائزر، لیک سٹی اور دی سٹی سکول بھی شامل ہیں۔
فوجی فرٹیلائزر کمپنی، جس میں فوج کی جزوی ملکیت ہے، نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو ایک نوٹس میں بتایا کہ وہ دلچسپی کے اظہار کی درخواست دے گی۔ پاکستان میں فرٹیلائزر کی صنعت ایک منافع بخش شعبہ ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین کا ایک گروپ بھی بولی کے لیے سامنے آیا ہے۔
ایئرلائن کے سینیئر سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ہدایت اللہ خان نے کہا: ’ملازمین اس بولی کے لیے اپنا پراویڈنٹ فنڈ اور پنشن استعمال کریں گے اور ساتھ ہی ایک سرمایہ کار بھی تلاش کریں گے تاکہ بولی میں شامل ہوا جا سکے۔ ہم اس قومی ادارے کو بچانے اور کمپنی کو بہتر بنانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔‘
گذشتہ سال ایئرلائن کی تنظیم نو کی گئی تھی جس میں تقریباً 80 فیصد پرانا قرضہ حکومت نے اپنے ذمے لے لیا تھا تاکہ سرمایہ کاروں کے لیے اسے مزید پرکشش بنایا جا سکے۔ تاہم بولی دہندگان اب بھی اضافی عملے اور ملازمین کو نکالنے کی اجازت سے متعلق خدشات رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال کی فروخت کی کوشش اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب صرف ایک ہی بولی 3 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی لگی، جو 30 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی کم از کم قیمت سے کہیں کم تھی۔
متعدد ممکنہ خریدار بولی سے پہلے ہی پیچھے ہٹ گئے تھے کیوں کہ حکومت کمپنی کا 100 فیصد حصہ دینے پر آمادہ نہیں تھی جبکہ خریداروں کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی شمولیت برقرار نہیں رکھنا چاہتے۔
اس کے بعد پی آئی اے نے 21 سال میں پہلی بار آپریٹنگ منافع حاصل کیا جو اخراجات میں کمی جیسے اصلاحاتی اقدامات کا نتیجہ تھا جبکہ اس سے پہلے وہ مجموعی طور پر 2.5 ارب ڈالر کا خسارہ اٹھا چکی تھی۔
صنعتی ذرائع کے مطابق موجودہ عمل کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا حکومت 100 فیصد ملکیت دینے پر آمادہ ہوتی ہے یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ رواں ماہ حکومت کی طرف سے نئے طیاروں کے لیز پر سیلز ٹیکس کی پیشگی ادائیگی کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ بھی اس معاہدے کو مزید پرکشش بنا دے گا۔
یورپی یونین کی جانب سے چار سالہ پابندی ختم ہونے کے بعد پی آئی اے نے جنوری میں یورپ کے لیے پروازیں دوبارہ شروع کی تھیں۔ ایئرلائن نے برطانیہ سے بھی لندن اور مانچسٹر کے لیے پروازوں کی اجازت مانگی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی پروازوں کی بحالی مستقبل کی ترقی کے مواقع کے لیے نہایت اہم ہے اور کامیاب بولی دہندگان ممکنہ طور پر غیر ملکی ایئرلائنز کو آپریٹرز کے طور پر شامل کریں گے۔